لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ ۚ فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ
(اور دیکھو) اس میں تمہارے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں اگر (اعمال حج کے ساتھ) تم اپنے پروردگار کے فض (رح) کی بھی تلاش میں رہو (یعنی کاروبار تجارت کا بھی مشغلہ رکھو) پس جب عرفات (نامی مقام) سے انبوہ در انبوہ لوٹو تو مشعر الحرام (یعنی مزدلفہ میں (ٹھہر کر) اللہ کا ذکر کرو۔ اور اسی طرح ذکر کرو جس طرح ذکر کرنے کا طریقہ تمہیں بتلا دیا گیا ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے تم بھی انہی لوگوں میں سے تھے جو راہ حق سے بھٹک گئے ہیں
1۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا :’’عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز جاہلیت میں بازار تھے، اب مسلمانوں نے حج کے دنوں میں وہاں تجارت کرنے کو گناہ سمجھا، تو اس پر یہ آیت اتری۔‘‘ [ بخاری، التفسیر، باب:﴿لیس علیکم جناح....﴾:۴۵۱۹] یعنی حج کے دوران میں خرید و فروخت ممنوع نہیں، بلکہ یہ مال و دولت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، اس لیے روزی کمانا منع نہیں ہے۔ 2۔ کعبہ سے چلیں تو پہلے منیٰ، پھر مزدلفہ، پھر عرفات آتا ہے۔ حاجی آٹھ ذوالحجہ (یوم ترویہ ) کو منیٰ میں ظہر سے پہلے پہنچتے ہیں، ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر منیٰ میں ادا کرتے ہیں۔ احرام کے بعد حج یہاں سے شروع ہوتا ہے، نو ذوالحجہ کو عرفات جاتے ہیں۔ سورج ڈھلنے سے لے کر اس کے غروب ہونے تک عرفات میں وقوف (ٹھہرنا) حج کا سب سے بڑا رکن ہے۔ عبد الرحمن بن یعمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’حج عرفات (میں وقوف) ہی ہے، جس نے مزدلفہ والی رات میں عرفات (کا وقوف) فجر طلوع ہونے سے پہلے پا لیا تو اس نے حج کو پا لیا۔‘‘ [ترمذی:۲۹۷۵۔ أبو داؤد:۱۹۵۰، و صححہ الألبانی] مشعر حرام ایک پہاڑ ہے، اس کے پاس سے مراد مزدلفہ ہے اور حرم کے اندر ہونے کی وجہ سے اسے”الْحَرَامِ“کہہ دیا گیا ہے، عرفات سے واپس آ کر حاجی حضرات رات یہاں بسر کرتے ہیں اور صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھ کر سورج طلوع ہونے کے قریب تک ذکر الٰہی میں مشغول رہتے ہیں، پھر سورج طلوع ہونے سے پہلے منیٰ کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ 3۔ وَ اذْكُرُوْهُ كَمَا هَدٰىكُمْ:یعنی مشرکین بھی اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے تھے، یہ بھی [لَبَّیْکَ اَللَّھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ] یعنی تیرا کوئی شریک نہیں کہتے تھے، مگر پھر ساتھ شریک ملاتے تھے، کہتے تھے:((اِلاَّ شَرِیْکًا لَکَ تَمْلِکُہٗ وَمَا مَلَکَ)) [ مسلم، الحج، باب التلبیۃ:۱۱۸۵] ’’ہاں ایک شریک جو تیرا ہے، جس کا تو مالک ہے، وہ خود مالک نہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اس کو اس طرح یاد کرو جیسے اس نے تمہیں ہدایت دی ہے‘‘ یعنی اس کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو، فرمایا:﴿فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ﴾ [ الشعراء:۲۱۳۔ القصص:۸۸] ’’اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو۔‘‘ پھر کیا حال ہے ان مسلمانوں کا جو وہاں جا کر بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیر اللہ کو پکارتے ہیں۔