الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
اگر حرم کے مہینوں کے رعایت کی جائے تو تمہاری طرف سے بھی رعایت ہونی چاہیے۔ اگر نہ کی جائے تو تمہاری طرف سے بھی نہیں ہے۔ (مہینوں کی) حرمت کے معاملہ میں (جب کہ لڑائی ہو) ادلہ کا بدلہ ہے (یعنی جیسی روش ایک فریق جنگ کی ہوگی، ویسی ہی دوسرے فریق کو بھی اختیار کرنی پڑے گی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک فریق تو مہینوں کی حرمت سے بے پروا ہو کر حملہ کردے اور دوسرا فریق حرمت کے خیال سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے) پس جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو چہایے کہ ججس طرح کا معاملہ اس نے تمہارے ساتھ کیا ہے ویسا ہی معاملہ تم بھی اس کے ساتھ کرو، البتہ (ہر حال میں) اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ بات نہ بھولو کہ اللہ انہی کا ساتھی ہے جو (انے تمام کاموں میں) پرہیز گار ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب ذوالقعدہ ۶ ھ میں عمرہ کے لیے تشریف لے گئے تو کفار نے مزاحمت کی اور عمرہ سے روک دیا، مگر آخرکار صلح ہو گئی اور قرار پایا کہ مسلمان آئندہ سال عمرہ کر لیں۔ یہ معاہدہ صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے، پھر جب دوسرے سال ۷ھ میں مسلمان عمرہ کے لیے روانہ ہوئے تو انھیں اندیشہ ہوا کہ ماہ حرام اور حرم مکہ میں تولڑائی منع ہے، لیکن اگر کفار نے بد عہدی کی اور ہمیں عمرہ سے روک دیا تو ہم کیا کریں گے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(ابن کثیر) یعنی (حرمت والے مہینوں کی حرمت کی پاس داری کفار کی طرف سے ان کی حرمت کی پاس داری کے مقابلے میں ہے) اگر وہ حرام مہینوں کا لحاظ نہ کریں تو تم بھی نہ کرو اور اگر وہ بدعہدی کریں تو تم بھی حرم کا لحاظ مت کرو۔ (قرطبی، ابن کثیر) واضح رہے کہ حرمت والے مہینے چار ہیں، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب۔ اگرچہ زیادتی کے جواب کو زیادتی نہیں کہا جاتا بلکہ وہ عین حق ہے، مگر یہ صرف لفظ کی حد تک مشابہت ہے کہ”فَمَنِ اعْتَدٰى“کے مقابلے میں لفظ ”فَاعْتَدُوْا“آیا ہے، جیسے فرمایا:﴿وَ جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ﴾ [الشوریٰ:۴۰ ] ’’ اور کسی برائی کا بدلہ اس کی مثل ایک برائی ہے۔‘‘