سورة النحل - آیت 91

وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدتُّمْ وَلَا تَنقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا ۚ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جب تم آپس میں قول قرار کرو تو (سمجھ لو کہ یہ اللہ کے نزدیک ایک عہد ہوگیا تو) چاہیے کہ اللہ کا عہد پورا کرو اور ایسا نہ کور کہ قسمیں پکی کر کے انہیں توڑ دو حالانکہ تم اللہ کو اپنے اوپر نگہبان ٹھہرا چکے ہو (یعنی اس کے نام کی قسم کھا کر اسے شاہد قرار دے چکے ہو) یقین کرو، تم جو کچھ کرتے ہو اللہ سے پوشیدہ نہیں، اس کا علم ہر بات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ : احکام الٰہی پورے کرنے کا عہد جو ایمان لانے کی صورت میں کیا ہے، یا آپس میں ایک دوسرے سے جائز طور پر کیے گئے عہد و پیمان۔ (شوکانی) ’’ عٰهَدْتُّمْ ‘‘ باب مفاعلہ سے ہے، مراد کسی دوسرے کے ساتھ کیا ہوا عہد ہے۔ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيْدِهَا....: پکا کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ جن قسموں کو پکا نہ کیا گیا ہو ان کا توڑنا جائز ہے، کیونکہ ہر وہ عہد جس پر قسم کھائی جائے اس پر اللہ تعالیٰ کو ضامن بنایا جاتا ہے اور وہ پکا ہو جاتا ہے اور اسے بلاعذر توڑنا جائز نہیں، بلکہ عہد توڑنا نفاق کی علامت ہے۔ بعض قسمیں انسان خود اٹھا لیتا ہے کہ میں ایسا کروں گا یا نہیں کروں گا۔ اگر انھیں پورا نہ کر سکے تو اس کا کفارہ سورۂ مائدہ (۸۹) میں مذکور ہے۔ اسی طرح لغو قسم کا حکم سورۂ بقرہ (۲۲۵) اور سورۂ مائدہ (۸۹) میں گزر چکا ہے۔ 3۔ جس قسم کے متعلق معلوم ہو جائے کہ اس کا پابند نہ رہنا دینی لحاظ سے بہتر ہے تو وہ قسم توڑ دے اور وہ کام کرے جو بہتر ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ حَلَفَ عَلٰی يَمِيْنٍ فَرَأَی غَيْرَهَا خَيْرًا مِّنْهَا، فَلْيُكَفِّرْ عَنْ يَمِيْنِهِ وَلْيَفْعَلْ )) [مسلم، الأیمان و النذور، باب ندب من حلف یمینًا فرأی غیرھا خیرَا منہا أن یأتی....: ۱۲ ؍۱۶۵۰ ] ’’جو شخص کسی بات پر قسم کھائے، پھر اس کے علاوہ دوسرے کام کو اس سے زیادہ اچھا سمجھے تو وہ (دوسرا) کام اختیار کرے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے۔‘‘ 4۔ اگر کسی ناجائز کام کا عہد کرے یا قسم اٹھائے تو اسے پورا کرنا جائز نہیں۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۲۴)۔