سورة النحل - آیت 72

وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ ۚ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کردیے (یعنی مرد کے لیے عورت اور عورت کے لیے مرد) اور تمہارے جوڑوں سے تمہارے لیے بیٹے اور پوتے پیدا کردیے (کہ ان سے تمہاری زندگی ایک وسیع خاندان کی نوعیت اختیار کرلیتی ہے) نیز تمہاری روزی کے لیے اچھی اچھی چیزیں مہیا کردیں۔ پھر یہ لوگ جھوٹی باتیں تو مان لیتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کی حقیقت سے انکار کرتے ہیں؟

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا ....:’’ حَفَدَةً ‘‘ ’’حَفَدَ يَحْفِدُ ‘‘ (ض) سے ’’حَافِدٌ‘‘ کی جمع ہے، خدمت اور اطاعت میں جلدی کرنے والا، جیساکہ قنوت کی ایک دعا میں ہے : (( وَإِلَيْكَ نَسْعٰی وَ نَحْفِدُ )) [ ابن خزیمۃ : ۲ ؍۱۵۵، ح : ۱۱۰۰ ] ’’حَفِيْدٌ ‘‘ کی جمع ’’حُفَدَاءُ‘‘ آتی ہے۔ ’’حَافِدٌ‘‘ اور ’’حَفِيْدٌ‘‘ بیٹوں کو اور اولاد کی اولاد کو کہتے ہیں، خادم کو بھی کہہ لیتے ہیں۔ (قاموس) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کئی احسان ذکر فرمائے ہیں، ایک تو تنہائی اور وحشت دور کرنے کے لیے ساتھی دیا، مرد کے لیے عورت، عورت کے لیے مرد۔ دوسرا یہ کہ وہ ساتھی اس کی جنس انسان سے دیا، کیونکہ دوسری جنس سے نہ انس حاصل ہو سکتا تھا، نہ سکون اور نہ موافقت۔ (دیکھیے روم : ۲۱) ہمارے والد ماجد آدم علیہ السلام کو جنت میں رہنے کے باوجود سکون تبھی حاصل ہوا جب انھیں اپنی جنس سے بیوی ملی۔ (دیکھیے نساء : ۱) اس سے اہل علم نے یہ بات بھی اخذ کی ہے کہ جن و انس کے درمیان نکاح کی اور ان سے اولاد ہونے کی تمام باتیں محض افسانہ ہیں۔ تیسرا یہ کہ میاں بیوی سے اولاد اور اولاد کی اولاد (بیٹے اور پوتے و نواسے) عطا فرمائے، جو بڑھاپے میں خوشی کا باعث اور سہارا بنتے ہیں اور خوش دلی سے بابا کی خدمت کرتے اور اس کے نام اور نسل کی بقا کا ذریعہ بنتے ہیں۔ چوتھا یہ کہ پھر ان سب کی زندگی کی ہر ضرورت کے لیے پاکیزہ رزق عطا فرمایا۔ اَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُوْنَ : یعنی کیا اپنے بنائے ہوئے خداؤں، حاجت رواؤں، مشکل کشاؤں اور داتاؤں کا احسان مانتے ہیں کہ انھوں نے ہی بیماری سے شفا دی، بیٹا دیا، یا روزی بخشی، حالانکہ وہ سب باطل ہیں اور وہم و خیال کے سوا ان کی کچھ حقیقت ہی نہیں۔ دیکھیے سورۂ یونس (۶۶)۔ وَ بِنِعْمَتِ اللّٰهِ هُمْ يَكْفُرُوْنَ: یعنی اللہ تعالیٰ جو سچا معبود ہے اور تمام احسانات اسی کے ہیں، اس کی نعمتوں کی ناشکری اور انکار کرتے ہیں، اس کے بجائے بتوں اور بزرگوں کے احسان مانتے ہیں کہ تندرستی، بیٹے اور روزی یہ دیتے ہیں، حالانکہ یہ سب باطل (جھوٹ) ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ دینے والا اللہ تعالیٰ ہے جس کے مشرک شکر گزار نہیں ہوتے۔