سورة النحل - آیت 70

وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ ۚ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ قَدِيرٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا پھر وہی ہے جو تمہاری زندگی پوری کردیتا ہے۔ اور تم میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو (بڑھاپے کی) بدترین عمر تک پہنچ جاتا ہے کہ (ذہن و عقل کی) سمجھ بوجھ رکھنے کے بعد پھر نادان ہوجائے۔ بیشک اللہ (سب کچھ) جاننے والا، ہر بات کی قدرت رکھنے والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفّٰىكُمْ....: بارش اور اس کے اثرات، چوپاؤں اور ان سے حاصل ہونے والے دودھ، کھجور اور انگور اور ان سے حاصل ہونے والی اشیاء اور شہد کی مکھی کی عجیب و غریب کارکردگی میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل بیان کرنے کے بعد اب خود انسان کے اندر پائے جانے والے دلائل میں سے چند کا بیان فرمایا۔ اس آیت میں انسان کی زندگی کے چار پانچ دور مذکور ہیں۔ سب سے پہلے پیدائش، اس کے ساتھ فوت کرنے کا ذکر فرمایا، باقی ادوار کا بعد میں ذکر فرمایا، کیونکہ پیدائش کے بعد ہر شخص پر ان تمام ادوار کا گزرنا ضروری نہیں۔ وفات کبھی پیٹ ہی میں ہو جاتی ہے، کبھی زندگی کے کسی اور مرحلے میں۔ کچھ لوگ سب سے نکمی عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں، جس میں انسان پھر بالکل بچپن والی حالت کی طرح کمزور ہو جاتا ہے۔ اس کی بے بسی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اس کے ہوش و حواس سلب ہو جاتے ہیں اور جو کچھ سیکھا پڑھا تھا، یا زندگی میں گزرا تھا سب بھول جاتا ہے۔ ہر کام میں دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے۔ بچپن اور ارذل العمر کے درمیان کے مرحلے ذکر نہیں فرمائے، کیونکہ وہ خود بخود سمجھ میں آ رہے ہیں۔ بچپن، لڑکپن جوانی، کمال قوت کو پہنچنا، ادھیڑ عمر، بڑھاپا اور آخر میں ارذل العمر۔ اگر اللہ چاہے تو ان میں سے کسی مرحلے کو بھی ارذل العمر میں بدل دے۔ اس آیت کی مزید وضاحت کے لیے دیکھیے سورۂ روم (۵۴) اور سورۂ یٰس (۶۸)۔ ثُمَّ يَتَوَفّٰىكُمْ: یہاں پیدائش کے بعد وفات کو بھی بطور آیت و نعمت ذکر فرمایا۔ آیت (نشانی) تو مومن و کافر ہر ایک کے لیے ہے، البتہ نعمت صرف مومن کے لیے ہے، خواہ وہ زندگی کے کسی مرحلے میں فوت ہو، کیونکہ نکمی عمر سے اس کے بغیر نجات کی کوئی صورت نہیں اور زندگی کے جس دور میں بھی فوت ہو قید خانے سے نکلنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ )) [ مسلم، الزھد والرقائق، باب الدنیا سجن للمؤمن وجنۃ للکافر : ۲۹۵۶، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔‘‘ پھر موت کے نعمت ہونے میں کیا شک ہے۔ 3۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ان کلمات کے ساتھ پناہ مانگا کرو جن کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پناہ مانگا کرتے تھے : (( اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ وَأَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ أَنْ أُرَدَّ إِلٰی أَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ )) [ بخاری، الدعوات، باب الاستعاذۃ من أرذل العمر.... : ۶۳۷۴ ] ’’اے اللہ! میں بزدلی سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور بخل سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ مجھے ارذل العمر (سب سے نکمّی عمر) کی طرف لوٹایا جائے اور میں دنیا کی آزمائشوں اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ : زندگی کے یہ تمام ادوار اور موت کمال علم و قدرت کے بغیر کوئی پیدا نہیں کر سکتا اور وہ ہستی صرف اللہ تعالیٰ کی ہے ۔ 5۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ باعمل علماء ارذل العمر سے محفوظ رہتے ہیں، اگر ان کی عمر زیادہ ہو تب بھی ان کی عقل اور حافظہ قائم رہتے ہیں۔ اس کا اشارہ اس آیت کی بعض تفسیروں سے نکلتا ہے : ﴿ ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ (5) اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ﴾ [ التین : ۵، ۶ ] ’’پھر ہم نے اسے لوٹا کر نیچوں میں سے سب سے نیچا کر دیا، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے۔‘‘ شنقیطی رحمہ اللہ اور بہت سے محدثین کا سو سے زیادہ عمر کے باوجود عقل و حافظہ محفوظ رہا۔