فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
پھر جو کوئی ایسا کرے کہ کسی آدمی کی وصیت سننے (اور اس کے گواہ اور امین ہونے) کے بعد اس میں ردوبدل کردے تو اس گناہ کی ذمہ داری اسی کے سر ہوگی جس نے ردوبدل کیا ہے (وصیت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا اس کی تعمیل ہر حال میں ضروری ہوگی) یقین کرو اللہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔
وصیت کا بدلنا بڑا گناہ ہے، اس میں وصیت کا چھپانا بھی داخل ہے۔ ”جَنَفًا“ ’’مائل ہونا‘‘ یعنی اگر کسی کی طرف دلی میلان کی وجہ سے وصیت میں اس کی نامناسب طرف داری ہو۔ ”اَوْ اِثْمًا“ یا ناجائز کام کی وصیت ہو، مثلاً شراب پلانے کی، ناچ کرانے کی، کسی قبر پر چراغاں کرنے یا میلہ اور عرس کرانے کی تو ایسی وصیت کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔ ایک تفسیر یہ ہے کہ ”جَنَفًا“ سے مراد دلی میلان کی بنا پر غلطی یا بھول چوک سے طرف داری ہو جائے اور ”اِثْمًا“ سے مراد جان بوجھ کر کسی کی حق تلفی ہو۔ ”فَاَصْلَحَ بَيْنَهُمْ“ یعنی وارثوں کو سمجھا بجھا کر ان میں صلح کرا دے۔