لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ
(تب فرشتوں نے لوط سے کہا) تمہاری زندگی کی قسم یہ لوگ تو اپنی بدمستیوں میں کھوئے گئے ہیں۔ (تمہاری باتیں ماننے والے نہیں)
لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِيْ....: ’’عَمْرٌ ‘‘ عین کے فتحہ کے ساتھ ’’عُمْرٌ‘‘ ہی کی ایک لغت ہے، اس کا معنی دنیا میں زندگی کی مدت ہے۔ قسم کے وقت ’’عین‘‘ ہمیشہ مفتوح ہوتا ہے۔ لام ابتدا کا ہے جو قسم کے معنی میں ہے۔ ’’عَمْرٌ‘‘ مبتدا ہے اور اس کی خبر ’’قَسْمِيْ‘‘ یا ’’يَمِيْنِيْ‘‘ ہے جو لازماً حذف ہوتی ہے، یعنی مجھے تیری عمر کی قسم۔ ’’سَكْرَةٌ‘‘ نشے میں ہونا، مدہوش ہونا۔ اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی قسم کھائی اور آپ کی اتنی تکریم فرمائی کہ آپ کے علاوہ کسی انسان کی زندگی کی قسم نہیں کھائی۔ لوط علیہ السلام کے قصے کے درمیان یہ جملہ معترضہ ہے، جس سے ان کا گمراہی سے کسی صورت باز نہ آنا بیان کرنا مقصود ہے۔ قسم اور جوابِ قسم میں مناسبت یہ ہے کہ اے نبی! آپ کی پوری پاکیزہ زندگی اور عفت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ لوگ جو اس کے بالکل برعکس چلنے والے تھے وہ دراصل ہوش میں نہ تھے اور اسی مدہوشی میں ایسے بھٹکے پھرتے تھے کہ ان کے لیے راہِ راست پر آنا ممکن ہی نہ تھا۔ ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ یہ فرشتوں کا کلام ہے اور انھوں نے لوط علیہ السلام کی زندگی کی قسم کھائی ہے۔ ہماری شریعت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی قسم کھانا منع ہے، صحیح احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کی چاہے قسم کھا سکتا ہے۔ قسم کے متعلق مفصل بات ان شاء اللہ آگے کسی مقام پر ہو گی۔