قَالُوا بَلْ جِئْنَاكَ بِمَا كَانُوا فِيهِ يَمْتَرُونَ
انہوں نے کہا نہیں یہ بات نہیں ہے بلکہ ہم تمہارے پاس وہ بات لے کر آئے ہیں جس میں لوگ شک کیا کرتے تھے (یعنی ہلاکت کے ظہور کی خبر جس کا لوگوں کو یقین نہ تھا)
قَالُوْا بَلْ جِئْنٰكَ بِمَا كَانُوْا فِيْهِ يَمْتَرُوْنَ....: ’’ اِمْتِرَاءٌ ‘‘ سے مضارع معلوم ہے، ایسا شک جو انسان کو ایسی بات پر جھگڑنے کے لیے آمادہ کرے جس کی حقیقت کچھ نہ ہو، بلکہ وہ صرف وہم و گمان پر مبنی ہو۔ (طنطاوی) اس لیے اس میں جھگڑے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ فرشتوں نے لوط علیہ السلام کو تسلی دینے کے لیے یہ بات کہی کہ ہم تمھیں پریشان کرنے کے لیے نہیں آئے، بلکہ وہ عذاب لے کر آئے ہیں جس میں یہ لوگ شک کرتے اور جھگڑتے رہے ہیں اور واقعی ہم سچ کہہ رہے ہیں۔ ’’ بِالْحَقِّ ‘‘ سے مراد عذاب ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةَ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ مَا كَانُوْا اِذًا مُّنْظَرِيْنَ ﴾ [ الحجر : ۸ ] ’’ہم فرشتوں کو نہیں اتارتے مگر حق (یعنی عذاب) کے ساتھ اور اس وقت وہ مہلت دیے گئے نہیں ہوتے۔‘‘