لَا يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُم مِّنْهَا بِمُخْرَجِينَ
وہاں کسی طرح کا صدمہ انہیں چھو نہیں سکے گا نہ وہاں سے کبھی نکالے جائیں گے۔
1۔ لَا يَمَسُّهُمْ فِيْهَا نَصَبٌ: دنیا میں کوئی شخص دکھ، مصیبت، مشقت اور تھکن سے خالی نہیں، بلکہ یہ ساری زندگی ہی محنت اور مشقت کی ہے، یہاں زیادہ سے زیادہ خوشی اور لذت کے ساتھ بھی کوئی نہ کوئی مشقت، محنت، تھکن یا غم ضرور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بلد کے شروع میں کئی قسمیں کھا کر فرمایا : ﴿ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ كَبَدٍ ﴾ [ البلد : ۴ ] ’’بلاشبہ یقیناً ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا ہے‘‘ اور سورۂ انشقاق میں فرمایا : ﴿ يٰاَيُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِيْهِ ﴾ [ الانشقاق : ۶ ] ’’اے انسان! بے شک تو مشقت کرتے کرتے اپنے رب کی طرف جانے والا ہے، سخت مشقت، پھر اس سے ملنے والا ہے۔‘‘ جب کہ جنت میں نہ کوئی دکھ ہو گا نہ تھکاوٹ۔ ابوسعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يُنَادِيْ مُنَادٍ إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوْا فَلَا تَسْقَمُوْا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَحْيَوْا فَلَا تَمُوْتُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوْا فَلَا تَهْرَمُوْا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَنْعَمُوْا فَلَا تَبْأَسُوْا أَبَدًا فَذٰلِكَ قَوْلُهٗ عَزَّوَجَلَّ : ﴿ وَ نُوْدُوْا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ )) [ الأعراف : ۴۳ ]’’ایک منادی ندا دے گا (اے جنت والو!) بے شک تمھارے لیے یہ ہو گا کہ تم تندرست رہو گے کبھی بیمار نہیں ہو گے اور تمھارے لیے یہ ہو گا کہ تم زندہ رہو گے کبھی تمھیں موت نہیں آئے گی اور تمھارے لیے یہ ہو گا کہ تم جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہیں ہو گے اور تمھارے لیے طے ہو چکا کہ تم خوش حال رہو گے کبھی تنگی اورتکلیف نہیں اٹھاؤ گے۔‘‘ چنانچہ یہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَ نُوْدُوْا اَنْ تِلْکُمُ الْجَنَّۃُ اُوْرِثْتُمُوْھَابِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’اور انھیں آواز دی جائے گی کہ یہی وہ جنت ہے جس کے وارث تم اس کی وجہ سے بنائے گئے ہو جو تم کیا کرتے تھے۔‘‘ [ مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمھا، باب في دوام نعیم أہل الجنۃ.....: ۲۲ ؍۲۸۳۷ ] 2۔ وَ مَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ : عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِذَا صَارَ أَهْلُ الْجَنَّةِ إِلَی الْجَنَّةِ، وَصَارَ أَهْلُ النَّارِ إِلَی النَّارِ، أُتِيَ بِالْمَوْتِ حَتّٰی يُجْعَلَ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، ثُمَّ يُذْبَحُ، ثُمَّ يُنَادِيْ مُنَادٍ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ! لَا مَوْتَ، يَا أَهْلَ النَّارِ! لَا مَوْتَ، فَيَزْدَادُ أَهْلُ الْجَنَّةِ فَرَحًا إِلٰی فَرَحِهِمْ، وَيَزْدَادُ أَهْلُ النَّارِ حُزْنًا إِلٰی حُزْنِهِمْ )) [ مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمھا، باب النار یدخلھا الجبارون....: ۴۳ ؍۲۸۵۰ ] ’’جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں پہنچ جائیں گے تو موت کو (ایک مینڈھے کی شکل میں) لایا جائے گا اور اسے جنت اور جہنم کے درمیان رکھ دیا جائے گا، پھر اسے ذبح کر دیا جائے گا، پھر ایک منادی اعلان کرے گا اے جنت والو! اب موت نہیں اور اے آگ والو! اب موت نہیں، تو جنت والے اپنی خوشی کے ساتھ اور زیادہ خوش ہو جائیں گے اور آگ والے اپنے غم کے ساتھ اور زیادہ غم زدہ ہو جائیں گے۔‘‘