إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ
بلاشبہ متقی انسان (اس دن) باغوں اور چشموں (کے عیش و راحت) میں ہوں گے۔
1۔ ’’ الْمُتَّقِيْنَ ‘‘ ’’اِتَّقٰي‘‘ باب افتعال سے اسم فاعل ’’مُتَّقِيْ‘‘ کی جمع ہے۔ مجرد ’’وَقٰي يَقِیْ وَقَايَةً‘‘ ہے، بمعنی بچانا اور نقصان دہ چیزوں سے محفوظ رکھنا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۲)۔ 2۔ فِيْ جَنّٰتٍ وَّ عُيُوْنٍ: گمراہ لوگوں کے برے انجام کے ساتھ ہی متقی لوگوں کے بہترین انجام کا ذکر ہے اور یہ قرآن مجید کا عام انداز ہے کہ وہ دونوں پہلوؤں کا ساتھ ساتھ ذکر کرتا ہے۔ ’’ جَنّٰتٍ ‘‘ ’’جَنَّةٌ‘‘ کی جمع ہے، گھنے درختوں کا باغ جو زمین کو چھپائے ہوئے ہو۔ ’’جَنَّ يَجُنُّ‘‘ کا معنی ہے چھپانا۔ ’’ عُيُوْنٍ ‘‘ کا معنی ہے چشمے، مراد وہ چشمے ہیں جن سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں، یا الگ چشمے، کیونکہ چشموں کا حسن ایک الگ ہی چیز ہے۔ سورۂ دہر میں کافور اور زنجبیل کی آمیزش والے چشمے، سلسبیل نامی چشمے اور سورۂ مطففین میں تسنیم نامی چشمے کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔ یاد رہے کہ جنت سے مراد صرف باغ ہی نہیں، بلکہ سونے چاندی کی اینٹوں کے مکانات اور ایک ایک موتی یا لعل سے بنے ہوئے میلوں لمبے اور اونچے خیموں کے ساتھ ملے ہوئے باغات ہیں، جیسا کہ صحیح احادیث میں جنت کے اوصاف میں مذکور ہے۔