سورة الحجر - آیت 29

فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تو جب ایسا ہو کہ میں اسے درست کردوں (یعنی وہ وجود تکمیل کو پہنچ جائے) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو چاہے کہ تم سب اس کے آگے سربسجود ہوجاؤ۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ....: یعنی جب میں اسے برابر کر لوں، مکمل بنا لوں۔ ’’ مِنْ رُّوْحِيْ ‘‘ اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں۔ یہاں ’’ رُوْحِيْ ‘‘ میں ’’رُوْحٌ‘‘ کی ’’یاء‘‘ کی طرف اضافت، اضافت تشریفی کہلاتی ہے، یعنی اس کا عزو شرف بڑھانے کے لیے اسے اپنی روح قرار دیا، یہاں ’’میری روح‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کی مخلوق روح ہے، کیونکہ اس کی ذات کی مثل تو کوئی چیز نہیں، وہ ’’ لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُوْلَدْ ‘‘ ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کی ذاتی روح تو کسی صورت مراد نہیں ہو سکتی، صرف آدم ہی نہیں دوسری جگہ ہر انسان کی روح کو اللہ نے اپنی روح قرار دیا ہے، فرمایا : ﴿ ثُمَّ سَوّٰىهُ وَ نَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ ﴾ [ دیکھیے السجدۃ : ۷ تا ۹ ] اور ظاہر ہے کہ انسان مخلوق ہے، یہ ایسے ہی ہے کہ ساری زمین اور اس کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی ہے، مگر مسجد حرام کو بیت اللہ (اللہ کا گھر) اور صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو اللہ کی اونٹنی قرار دیا ہے۔ 2۔ اس آیت سے آیت (۳۹) تک کی مفصل تفسیر کے لیے سورۂ اعراف ( ۱۱ تا ۱۸) اور سورۂ بقرہ ( ۳۰ تا ۳۴) تک کے فوائد ملاحظہ فرمائیں۔