سورة الحجر - آیت 9

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

بلاشبہ خود ہم نے الذکر (یعنی قرآن کہ سرتا پا نصیحت ہے) اتارا ہے اور بلا شبہ خود ہم ہی اسکے نگہبان ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ....: یہاں اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’قرآن ‘‘ کے بجائے لفظ ’’ذکر ‘‘ استعمال فرمایا، جس میں سب سے پہلے قرآن آتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنَّا اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ﴾ [ یوسف : ۲ ] ’’بے شک ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا ہے، تاکہ تم سمجھو۔‘‘ اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور احوال یعنی حدیث بھی ذکر (نصیحت) ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نازل کردہ ذکر قرار دیا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْكُمْ ذِكْرًا (10) رَّسُوْلًا يَّتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِ اللّٰهِ مُبَيِّنٰتٍ ﴾ [ الطلاق : ۱۰، ۱۱ ] ’’یقیناً اللہ نے تمھاری طرف ایک ذکر (نصیحت) نازل کیا ہے، جو ایسا رسول ہے کہ تمھارے سامنے اللہ کی واضح بیان کرنے والی آیات پڑھتا ہے۔‘‘ علاوہ ازیں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بار بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کریں اسے کرنے کا اور جو کہیں اسے ماننے کا حکم دیا، پہلے کا نام اتباع ہے، دوسرے کا اطاعت ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ ﴾ [ آل عمران : ۳۱ ] ’’کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ ﴾ [ آل عمران : ۳۲ ] ’’کہہ دے اللہ اور رسول کا حکم مانو۔‘‘ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا: اس جملے میں اللہ تعالیٰ نے بے حد تاکید کے لیے لفظ ’’ہم نے‘‘ کو تین دفعہ دہرایا ’’ اِنَّا ‘‘ میں ’’ نَا ‘‘ ( ہم نے)، دوسرا ’’ نَحْنُ ‘‘ (ہم نے) اور تیسرا ’’ نَزَّلْنَا ‘‘ میں ’’نَا‘‘ (ہم نے) ۔ بہت کوشش سے بھی تینوں تاکیدوں کا ترجمہ فصیح اردو میں مشکل ہے۔ 3۔ یعنی یہ ’’ذکر‘‘ جس کے لانے والے کو تم دیوانہ کہہ رہے ہو، یہ تو خود ہم ہی نے نازل کیا اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ قاضی اسماعیل بصری سے پوچھا گیا کہ اس میں کیا راز ہے کہ پہلی کتابیں قرآن کی طرح محفوظ نہ رہ سکیں؟ انھوں نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت انسانوں کے ذمے لگائی تھی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنَّا اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ … بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ ﴾ [ المائدۃ : ۴۴ ] ’’بے شک ہم نے تورات اتاری… اس لیے کہ وہ اللہ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے‘‘ جب کہ قرآن کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لی۔ (الوسیط) ایک حکمت یہ بھی ہے کہ قرآن وحدیث قیامت تک کے لیے تمام لوگوں کے لیے ہیں، جب کہ اس سے پہلے ہر کتاب ایک قوم اور ایک وقت تک کے لیے تھی۔ جس طرح قرآن اپنے الفاظ اور معانی کے اعتبار سے معجزہ ہے کہ جن و انس جمع ہو کر بھی اس جیسی ایک سورت نہیں بنا سکتے، اسی طرح یہ بھی اس کا معجزہ ہے کہ اس میں رد و بدل نہیں ہو سکے گا۔ قرآن کی حفاظت کا یہ وعدہ حیرت انگیز طور پر پورا ہو رہا ہے۔ قرآن کے سوا دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں جو چودہ سو سال گزرنے کے باوجود اس طرح محفوظ ہو کہ اس کے کسی ایک حرف میں رد و بدل نہ ہوا ہو۔ دنیا بھر میں قرآن کے جتنے نسخے موجود ہیں ان میں معمولی سا بھی اختلاف نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ لاکھوں کروڑوں انسانوں کے سینوں میں محفوظ ہے۔ مسلمانوں پر زوال اور غلامی کے ایام بھی آئے، مگر قرآن کی حفاظت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت جو کسی اور کتاب کو نصیب نہیں ہوئی اور قرآن کی اس طرح حفاظت کے غیر مسلم مخالف بھی معترف ہیں۔ 4۔ منکرینِ حدیث عموماً حدیث سے انکار کے لیے کہتے ہیں کہ قرآن کی حفاظت کا تو اللہ نے وعدہ کیا، مگر حدیث کی حفاظت کا وعدہ نہیں فرمایا، اس لیے اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ ان سے پوچھیے کہ اس کی کیا دلیل ہے؟ تو وہ یہ آیت پڑھیں گے، حالانکہ اس میں لفظ ’’قرآن‘‘ نہیں بلکہ ’’ الذِّكْرَ ‘‘ ہے، جس میں حدیث بھی شامل ہے اور اس کی حفاظت کا بھی اللہ تعالیٰ نے اتنا زبردست اور عجیب و غریب انتظام فرمایا کہ دنیا میں کسی شخص کے اقوال و افعال اور احوال اس طرح محفوظ نہیں جس طرح ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محفوظ ہیں۔ اس کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ، تابعین اور محدثین نے اتنی محنت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی ہمارے لیے محفوظ فرما دی، جس کی پیروی اور اطاعت ہمارے لیے لازم تھی۔ اس حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں میں رجال اور اصول حدیث کے علوم کا الہام فرمایا اور انھوں نے ایک لاکھ سے زائد افراد کی زندگی کے حالات، ان کا قابل اعتماد ہونا یا نہ ہونا، ان کا سن پیدائش و وفات محفوظ فرما دیا، جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ روایت جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے، صحیح ہے یا نہیں۔ کسی نبی کی زندگی کے حالات اور اقوال و افعال کے لیے نہ یہ اہتمام کسی امت کو نصیب ہوا اور نہ کسی نبی کے حالات اس کا ہزارواں حصہ بھی ملتے ہیں جس قدر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بحفاظت دنیا تک پہنچے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر حدیث محفوظ نہ ہو تو قرآن پر عمل ناممکن ہے، نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج وغیرہ غرض کوئی چیز بھی حدیث کی تفصیل کے بغیر ادا کرنا ناممکن ہے۔رہی یہ بات کہ احادیث میں ضعیف روایات کی آمیزش ہے تو جواب یہ ہے کہ جب اس کا حل موجود ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ محدثین نے صحیح و ضعیف کو الگ الگ کر دیا ہے۔ جس طرح شیعہ کے عقیدے سے کہ یہ قرآن وہ نہیں جو علی رضی اللہ عنہ یا اہل بیت کے پاس تھا، قرآن مجید کی صحت و عظمت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ بے دلیل دعویٰ کچھ وزن نہیں رکھتا اور آج تک ان کے مزعوم قرآن کا کہیں وجود نہیں ملا، اسی طرح منکرین حدیث کے اعتراض سے حدیثوں کی حفاظت پر کوئی حرف نہیں آتا، کیونکہ یہ سب اعتراض لاعلمی یا الحاد کا نتیجہ ہیں اور ان سب کا جواب علمائے اسلام نے بہترین طریقے سے دے دیا ہے۔