سورة ابراھیم - آیت 13

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُم مِّنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۖ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور منکروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم تمہیں اپنے ملک سے ضرور نکال باہر کریں گے یا پھر تم ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ، (جب معاملہ یہاں تک پہنچ گیا) تو ہم نے رسولوں پر وحی بھیجی، اب ایسا ضرور ہوگا کہ ہم ان ظالموں کو ہلاک کر ڈالیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَا: کفار نے اپنی کثرت اور اہل ایمان کی قلت دیکھ کر اپنے رسولوں کو یہ دھمکی دی کہ تمھارے سامنے صرف دو راستے ہیں یا تو ہم تمھیں اپنی زمین سے نکال دیں گے، یا پھر تم اسلام چھوڑ کر واپس آ جاؤ گے، جیسا کہ اس وقت ہند کے کافر مسلمانوں کو قتل یا ارتداد یا نکل جانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِيْ مِلَّتِنَا : ’’یا تم ہماری ملت میں واپس آؤ گے‘‘ کفار کا یہ کہنا ان کے اپنے گمان کے مطابق تھا، ورنہ یہ مطلب نہیں کہ انبیاء علیھم السلام نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے اپنی گمراہ قوم کے دین کی پیروی کرتے تھے، بلکہ بات یہ تھی کہ نبوت سے پہلے انبیاء علیھم السلام ان کے بتوں کے معاملہ میں خاموش رہتے تھے، جس پر انھوں نے بطور خود یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ ان کے مذہب پر ہیں، یا اس ’’ لَتَعُوْدُنَّ ‘‘ کا معنی ’’ لَتَصِيْرُنَّ ‘‘ ہے، یعنی تم ہماری ملت میں آ جاؤ گے۔ (دیکھیے اعراف : ۸۸) یا خطاب ان لوگوں سے ہے جو کفر کو چھوڑ کر پیغمبروں پر ایمان لے آئے تھے۔ (رازی)