أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ وَاللَّهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ ۚ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
پھر کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم اس سرزمین کا قصد کر رہے ہیں؟ اسے اطراف سے گھٹاتے ہوئے (اور ظالموں پر عرصہ حیات تنگ کرتے ہوئے؟) اور اللہ ہے جو فیصلہ کرتا ہے، کوئی نہیں جو اس کا فیصلہ ٹال سکے، وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔
1۔ اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ.....: یہ کفار کے لیے وعید اور مسلمانوں کے لیے خوش خبری ہے، یعنی کیا ان کفار نے نہیں دیکھا کہ ہم ان کی زمین کو اس کے کناروں سے کم کرتے چلے آ رہے ہیں، ان کے شہر اور علاقے یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے قبضے میں آتے جا رہے ہیں، ایک وقت آ رہا ہے کہ انھیں زمین کے مرکز ام القریٰ یعنی مکہ سے بھی بے دخل ہونا پڑے گا۔ چونکہ مکہ میں مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا، اس لیے بعض مفسرین نے اس سورت کو مدنی قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی پیش قدمی کو اپنی پیش قدمی قرار دیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی کا دین آگے بڑھ رہا تھا اور مسلمانوں کا آگے بڑھنا صرف اللہ ہی کی مدد سے تھا، ورنہ وہ کفار کی متحدہ قوتوں کے سامنے اکیلے اپنی طاقت سے کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے مسلمانوں کی پیش قدمی کو ’’ اَنَّا نَاْتِي ‘‘ (اپنے آنے) کے الفاظ کے ساتھ بیان کرنے میں اللہ تعالیٰ کی ہیبت و جلال کا جو اظہار ہو رہا ہے وہ اللہ کے کلام ہی کی خصوصیت ہے، جیسے فرمایا : ﴿ فَاَتَى اللّٰهُ بُنْيَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَ اَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُوْنَ ﴾ [النحل : ۲۶ ] ’’(یعنی ان کفار سے پہلے لوگوں نے سازشیں کیں) تو اللہ ان کی عمارت کو بنیادوں سے آیا، پس ان پر ان کے اوپر سے چھت گر پڑی اور ان پر وہاں سے عذاب آیا کہ وہ سوچتے نہ تھے۔‘‘ یہی وہ حقیقت ہے جس کا اظہار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا اور مروہ پر کھڑے ہو کر ان الفاظ میں کیا : (( لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَ نَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ)) [ مسلم، الحج، باب حجۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ۱۲۱۸ ] ’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اکیلے ہی نے تمام جماعتوں کو شکست دی۔‘‘ کفار پر تعجب ہے کہ یہ دیکھ کر بھی کہ دن بدن اسلام کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے اور کفر و شرک سمٹ رہا ہے، یہ لوگ اسلام نہیں لاتے۔ اللہ تعالیٰ کی بشارت کے مطابق پھر وہ وقت آیا کہ مشرق اور مغرب کے آخر تک اسلام کا علم لہرانے لگا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق ہر صورت وہ وقت آنے والا ہے جو مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے : ((لاَ يَبْقَی عَلَی ظَهْرِ الْأَرْضِ بَيْتُ مَدَرٍ وَلاَ وَبَرٍ إِلاَّ أَدْخَلَهٗ اللّٰهُ كَلِمَةَ الْإِسْلاَمِ بِعِزِّ عَزِيْزٍ أَوْ ذُلِّ ذَلِيْلٍ إِمَّا يُعِزُّهُمُ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ فَيَجْعَلُهُمْ مِنْ أَهْلِهَا أَوْ يُذِلُّهُمْ فَيَدِيْنُوْنَ لَهَا)) [ أحمد :6؍4، ح : ۲۳۸۷۶ وصححہ الألبانی ]’’زمین کی پشت پر اینٹوں یا بالوں کا بنا ہوا کوئی گھر (یا خیمہ) باقی نہیں رہے گا، مگر اللہ تعالیٰ اس میں کلمۂ اسلام کو داخل کر دے گا، عزت والوں کو عزت بخش کر اور ذلیل کو ذلت دے کر، یا تو انھیں عزت دے گا اور انھیں یہ کلمہ پڑھنے والوں میں داخل کر دے گا، یا انھیں ذلیل کرے گا اور وہ اس کے محکوم بن جائیں گے۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ انبیاء (۴۴)۔ 2۔ وَ اللّٰهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖ: کیونکہ اس کے فیصلے پر نظر ثانی کرکے اسے وہی بدل سکتا ہے جو اس پر غالب ہو، جب کہ ایسی کسی ہستی کا کہیں وجود ہی نہیں۔ 3۔ وَ هُوَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ : یعنی اس کے حساب لینے کا وقت نہایت تیزی کے ساتھ آ رہا ہے، حتیٰ کہ اس کے آنے پر مجرم قسمیں کھا کر کہیں گے کہ ہم دنیا میں صرف ایک گھڑی رہے ہیں۔ (روم : ۵۵) دوسرا مطلب یہ ہے کہ اسے حساب لینے میں ذرہ برابر دیر نہیں لگتی بلکہ قیامت کے دن پل بھر میں سارا حساب سامنے آ جائے گا۔