وَإِن مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ
اور ہم نے ان لوگوں سے (یعنی کفار مکہ سے ظہور نتائج کے) جو وعدے کیے ہیں (کچھ ضرور نہیں کہ بیک دفعہ سب ظہور میں آجائیں) ہوسکتا ہے کہ ان میں سے بعض باتیں ہم تجھے تیری زندگی ہی میں دکھا دیں، ہوسکتا ہے کہ ان سے پہلے تیرا وقت پورا کردیں۔ بہرحال جو کچھ تیرے ذمہ ہے وہ یہی ہے کہ پیام حق پہنچا دینا۔ ان سے (ان کے کاموں کا) حسابلینا ہمارا کام ہے۔ تیرا کام نہیں۔
وَ اِنْ مَّا نُرِيَنَّكَ ....: ’’ مَا ‘‘ شرط کے معنی کی تاکید کے لیے ہے جو ’’ اِنْ ‘‘ کا مفہوم ہے۔ اس لیے ترجمہ کیا ہے ’’اور اگر کبھی ہم واقعی تجھے دکھا دیں۔‘‘ یہاں ’’ نُرِيَنَّكَ ‘‘ کا معنی آنکھوں سے دکھانا ہے، دل سے یا گمان اور خیال سے نہیں۔ شرط میں مذکور ’’ نُرِيَنَّكَ ‘‘ اور ’’ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ ‘‘ دونوں کا جواب محذوف ہے، یعنی ضروری نہیں کہ دنیا میں انھیں دی جانے والی سزا ہم آپ کی زندگی ہی میں آپ کو دکھا کر دیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کی وفات کے بعد ان کی سزا کا وقت آئے، اگر ہم آپ کو آنکھوں سے ان کی کچھ دنیوی سزا دکھا دیں تو یہ آپ اور آپ کے ساتھیوں کے سینوں اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہو گا اور اگر پہلے فوت کر لیں تب بھی آپ فکر نہ کریں، کیونکہ آپ کا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے۔ رہا ان کے اعمال پر محاسبہ اور مؤاخذہ تو وہ ہمارے ذمے ہے۔ اس آیت میں اشارہ ہے کہ کچھ وعدے تو آپ کی زندگی میں پورے ہوں گے اور کچھ آپ کی وفات کے بعد۔ باغبان پودے لگاتا ہے، کچھ اس کی زندگی میں پھل دے دیتے ہیں اور کچھ کئی سالوں کے بعد آنے والی نسل کو پھل دیتے ہیں، لہٰذا آپ کو اس کے لیے جلدی نہیں کرنی چاہیے اور انھیں بے فکر اور غافل نہیں رہنا چاہیے۔