سورة الرعد - آیت 39

يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ جو بات چاہتا ہے مٹا دیتا ہے جو چاہتا ہے نقش کردیتا ہے اور کتاب کی اصل و بنیاد اسی کے پاس ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَآءُ وَ يُثْبِتُ.....: بظاہر یہ آیت اس حدیث کے خلاف ہے : (( جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا أَنْتَ لَاقٍ)) [بخاری، النکاح، باب ما یکرہ من التبتل والخصاء : ۵۰۷۶ ] ’’جس چیز یا حال کو تم ملنے والے ہو قلم اس کے ساتھ خشک ہو چکا ہے۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو فیصلہ ہو چکا وہ اب مٹنے والا نہیں، اس سوال کے حل کے لیے اس آیت کی تفسیر اہل علم نے دو طرح سے کی ہے، ایک تو یہ کہ جس طرح معجزہ اور کرامت اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے، کسی دوسرے کا اس میں کچھ دخل نہیں، اسی طرح کسی حکم کو باقی رکھنا یا اسے منسوخ کر دینا بھی اسی کے اختیار میں ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب ہے جس میں یہ بھی لکھا ہے کہ کون سا حکم کب تک باقی رکھنا ہے اور کون سا حکم منسوخ کرنا ہے اور کب کرنا ہے۔ گویا یہ یہود پر رد ہے جو نسخ کے قائل نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں بھی ان پر رد فرمایا : ﴿ مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا اَوْ مِثْلِهَا ﴾ [ البقرۃ : ۱۰۶ ] یعنی جو بھی آیت ہم منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں اس سے بہتر یا اس جیسی اور لے آتے ہیں اور یہ سب باقی رکھنا یا منسوخ کرنا (محو و اثبات) ام الکتاب میں درج ہے، جو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیت (۱۰۶) کی تفسیر بھی ملاحظہ فرما لیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ جب تک چاہتا ہے ایک رسول کے احکام پر عمل قائم رکھتا ہے، پھر جس وقت چاہتا ہے بعد میں آنے والے رسول کے احکام پر عمل فرض کر دیتا ہے اور پہلے پر عمل ختم کر دیتا ہے۔ ’’ يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَآءُ وَ يُثْبِتُ ‘‘ میں یہ بھی شامل ہے کہ کسی بندے کے نامۂ اعمال میں کوئی بھی نیک یا بدعمل اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو باقی رکھتا ہے، چاہتا ہے تو مٹا دیتا ہے اور یہ نہیں کہ پہلے اسے علم نہیں تھا کہ میں نے کیا ثابت رکھنا ہے اور کیا مٹانا ہے، بلکہ اصل کتاب اسی کے پاس ہے ۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ تقدیر کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، اسے قضائے مبرم کہتے ہیں اور یہ وہی ہے جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا : (( جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا أَنْتَ لَاقٍ)) [ بخاری، النکاح، باب ما یکرہ من التبتل والخصاء : ۵۰۷۶ ] ’’تم جس چیز یا حال کو ملنے والے ہو اس کے ساتھ قلم خشک ہو چکا ہے۔‘‘ اور ایک تقدیر وہ ہے جس میں تبدیلی ہوتی ہے، اسے تقدیر معلق کہتے ہیں اور وہ بھی اللہ کے علم میں ہے۔ چنانچہ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’دنیا میں ہر چیز اسباب سے ہے، بعض اسباب ظاہر ہیں اور بعض چھپے ہیں۔ اسباب کی تاثیر کا ایک اندازہ مقرر ہے، جب اللہ چاہے ان کی تاثیر اندازے سے کم یا زیادہ کر دے اور جب چاہے ویسی ہی رکھے۔ آدمی کبھی کنکر سے مرتا ہے اورگولی سے بچتا ہے اور ایک اندازہ ہر چیز کا اللہ کے علم میں ہے، وہ ہر گز نہیں بدلتا۔ اندازے کو تقدیر کہتے ہیں، یہ دو تقدیریں ہوئیں، ایک بدلتی ہے (تقدیر تاثیر اسباب) اور ایک نہیں بدلتی (یعنی علمِ الٰہی)۔‘‘ (موضح) شیخ ناصر الدین البانی نے سلسلہ الاحادیث الضعیفہ (۵۴۴۸) میں فرمایا : ’’قرطبی نے بھی اپنی تفسیر ’’الجامع (۵؍۳۳۲)‘‘ میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے، وہ لکھتے ہیں : ’’اور عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے (قضا) میں تبدیلی نہیں ہوتی اور یہ محو و اثبات بھی ان چیزوں میں شامل ہے جن کا فیصلہ پہلے ہو چکا ہے اور یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ قضا میں سے کچھ چیزیں وہ ہیں جو لازماً ہو کر رہنی ہیں، یہ وہ ہیں جو ثابت (مبرم) ہیں اور کچھ وہ ہیں جن میں بعض اسباب سے تبدیلی ہو جاتی ہے، یہ محو (مٹائی ہوئی) ہیں۔ (واللہ اعلم) غزنوی رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’میرے نزدیک یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ ہے وہ غیب سے نکل چکا ہے، کیونکہ بعض فرشتے بھی اس سے واقف ہیں، اس لیے وہ تبدیل ہو سکتا ہے، کیونکہ مخلوق کا اللہ تعالیٰ کے پورے علم سے واقف ہونا محال ہے اور اس کے علم میں اشیاء کی جو تقدیر اور طے شدہ بات ہے وہ کبھی نہیں بدلتی۔‘‘ (سلسلہ ضعیفہ کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ ظاہر یہ ہے کہ غزنوی سے مراد عالی بن ابراہیم بن اسماعیل ہیں جن کا لقب ’’تاج الشریعہ‘‘ ہے، یہ ایک حنفی فقیہ مفسر ہیں، ان کی کتاب تفسیر التفسیر ہے جو بہت عمدہ ہے، جیسا کہ کئی علماء نے فرمایا ہے، ۵۸۲ ھ میں فوت ہوئے۔ الاعلام) خلاصہ یہ کہ اس ’’محو و اثبات‘‘ کا اس ’’بدا‘‘ کے غلط عقیدے سے کوئی تعلق نہیں جو بعض گمراہ لوگوں نے اختیار کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ تم کوئی کام کرو، پھر اس کا غلط ہونا تمھیں معلوم ہو تو اسے بدل دو۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا حرام ہے ، کیونکہ وہ پہلے ہی جانتا ہے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط ہے۔ اس تفصیل سے اللہ کے فیصلے کے بدل نہ سکنے کے عقیدے اور ان تمام احادیث و اقوال صحابہ کے متعلق اشکال ختم ہو جاتا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات تقدیر بدل سکتی ہے، خصوصاً دعا سے، مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : (( لاَ يَرُدُّ الْقَضَاءَ إِلاَّ الدُّعَاءُ وَلَا يَزِيْدُ فِي الْعُمُرِ إِلَّا الْبِرُّ)) [ ترمذی، القدر، باب ما جاء لا یرد القدر إلا الدعاء : ۲۱۳۹۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ :1؍153، ح : ۱۵۴ ] ’’تقدیر کو دعا کے سوا کوئی چیز نہیں ٹالتی اور عمر کو نیکی کے سوا کوئی چیز زیادہ نہیں کرتی۔‘‘ اسی طرح بعض صحابہ کی دعائیں کہ یا اللہ! اگر تو نے مجھے شقی لکھا ہے تو اسے بدل کر سعید لکھ دے۔