سورة الرعد - آیت 38

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً ۚ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور یہ واقعہ ہے کہ ہم نے تجھ سے پہلے بھی (بے شمار) پیغمبر قوموں میں پیدا کیے اور (وہ تیری ہی طرح انسان تھے) ہم نے انہیں بیویاں بھی دی تھیں اور اولاد بھی، اور کسی پیغمبر کے لیے یہ بات نہ ہوئی کہ وہ (خود) کوئی نشانی لا دکھاتا مگر اسی وقت کہ اللہ کا حکم ہوا ہو، ہر وقت کے لیے ایک کتاب ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ ....: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر مشرکین یہ بھی اعتراض کرتے کہ یہ عجیب پیغمبر ہیں کہ دوسرے انسانوں کی طرح نکاح کرتے ہیں، ان کی اولاد بھی ہے، حالانکہ پیغمبر کو ان باتوں سے کیا واسطہ؟! بلکہ انھیں اس پر بھی اعتراض تھا کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ (دیکھیے فرقان : ۷) اس آیت میں اسی اعتراض کا جواب ہے کہ نبوت عورتوں سے نکاح کے منافی نہیں، آپ سے پہلے جتنے بھی اللہ کے پیغمبر ہو گزرے ہیں وہ سب بشر ہی تھے اور ان میں اکثریت ان پیغمبروں کی ہے جو بیوی بچے رکھتے تھے۔ وہ سب کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے۔ (دیکھیے فرقان:۲۰) تمھیں ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام کی اولاد ہونے پر فخر ہے تو کیا تم ان کی شادی کے بغیر ہی پیدا ہو گئے ہو؟! اسی طرح بنی اسرائیل اور ان کے انبیاء کو دیکھ لو۔ سلیمان علیہ السلام کی بیویوں اور لونڈیوں کی تعداد کی طرف دھیان کرو! غرض تمھارا یہ اعتراض سرے سے ہے ہی لغو۔ ہمارے زمانے میں بھی کئی لوگ انھی لوگوں کو اللہ والے، ولی اور بزرگ سمجھتے ہیں جو نہ شادی کریں، نہ کمائی، راہب بن کر دین کی دعوت اور جہاد کے بجائے گوشہ نشینی اور خود محنت کرکے کھانے کے بجائے دوسروں کی کمائی پر زندگی بسر کریں، حالانکہ اسلام میں یہ کام حرام ہیں۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ((جَاءَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ إِلٰی بُيُوْتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُوْنَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أُخْبِرُوْا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوْهَا فَقَالُوْا وَأَيْنَ نَحْنُ مِنَ النِّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غَفَرَ اللّٰهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ أَمَّا أَنَا فَأَنَا أُصَلِّی اللَّيْلَ أَبَدًا، وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَصُوْمُ الدَّهْرَ وَلَا أُفْطِرُ، وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلاَ أَتَزَوَّجُ أَبَدًا، فَجَاءَ إِلَيْهِمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَنْتُمُ الَّذِيْنَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا ؟ أَمَا وَاللّٰهِ ! إِنِّيْ لَأَخْشَاكُمْ لِلّٰهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لٰكِنِّيْ أَصُوْمُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّيْ وَ أَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَيْسَ مِنِّيْ)) [ بخاری، النکاح، باب الترغیب في النکاح : ۵۰۶۳۔ مسلم : ۱۴۰۱ ] ’’تین آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے گھروں کی طرف آئے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق پوچھ رہے تھے۔ جب انھیں بتایا گیا تو گویا انھوں نے اسے کم سمجھا، کہنے لگے : ’’ہماری نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا نسبت؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے پہلے اور پچھلے سب گناہ معاف فرما دیے ہیں۔‘‘ چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا : ’’میں ہمیشہ ساری رات نماز پڑھوں گا۔‘‘ دوسرے نے کہا : ’’میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، کبھی روزے کے بغیر نہیں رہوں گا۔‘‘ تیسرے نے کہا : ’’میں عورتوں سے علیحدہ رہوں گا، کبھی نکاح نہیں کروں گا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے (انھیں بلوایا) اور فرمایا : ’’تم لوگوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں، یاد رکھو! اللہ کی قسم! میں تم سب سے زیادہ اللہ کی خشیت والا ہوں اور تم سب سے زیادہ اللہ کے تقویٰ والا ہوں، لیکن میں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا اور نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، تو جو میرے طریقے سے بے رغبتی کرے گا وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ وَ مَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ يَّاْتِيَ بِاٰيَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ: مخالفین کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اگر یہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) واقعی اللہ کے سچے پیغمبر ہیں تو ہماری طلب کے مطابق معجزے اور نشانیاں کیوں نہیں لاتے۔ ان کے جواب میں فرمایا کہ پہلے پیغمبر جتنے معجزے لائے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکم سے لائے ہیں، اب اگر اللہ کا حکم ہو گا تو وہ اپنے اس پیغمبر سے بھی معجزے ظاہر کر دے گا، ورنہ پیغمبر میں از خود یہ ہمت کہاں ہے کہ اپنی مرضی سے جو معجزہ چاہے ظاہر کر دے۔ یہی حال اولیاء کی کرامتوں کا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کرامت دکھلانے پر قادر نہیں ہوتے۔ یہاں آیت سے مراد قرآن کی آیت بھی ہو سکتی ہے جس میں ان کی مرضی کے مطابق کوئی حکم نازل ہو جائے۔ (ابن کثیر) لِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ : یعنی ہر وقت کے لیے ایک لکھا ہوا فیصلہ ہے جو اس وقت ہو کر رہے گا۔