سورة البقرة - آیت 166

إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) جب ایسا ہوگا کہ وہ (جھوٹے پیشوا) جن کی پیروی کی گئی تھی ( بجائے اس کے کہ اپنے پیروؤں کے کام آئیں) اپنے پیروؤں سے بیزار ظاہر کرنے لگیں گے (یعنی کہیں گے ہمیں ان لوگوں سے کوئی واسطہ نہیں) کیونکہ عذاب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور ان باہمی رشتوں وسیلوں کا تمام سلسلہ ٹوٹ جائے گا ( کہ نہ تو کوئی کسی کا ساتھ دے گا اور نہ کسی کو کسی کی فکر ہوگی)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

تَبَرَّاَ: یہ ”بَرِئَ“سے باب تفعل ہے۔ حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے ترجمہ ’’بالکل بے تعلق ہو جائیں گے‘‘ کیا گیا ہے اور ’’ بِخٰرِجِيْنَ ‘‘ میں باء نفی کی تاکید کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ’’وہ کسی صورت آگ سے نکلنے والے نہیں ‘‘ کیا گیا ہے۔ ان آیات میں قیامت کے دن ان مشرکوں کی حالتِ زار کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ کاش! وہ دنیا میں اللہ کی بات پر یقین کرکے اس انجام سے بچ جائیں ۔ مزید دیکھیے سورۂ قصص (۶۳، ۶۴) اور سورۂ احقاف (۵،۶) ان آیات سے قدیم اور جدید علماء کی جماعت نے حرمت تقلید پر استدلال کیا ہے کہ جس طرح اہل شرک جن کے پیچھے لگے وہ اپنے پیچھے لگنے والوں سے بے زاری ظاہر کریں گے، اسی طرح ائمۂ مجتہدین بھی اپنے مقلدوں سے بے زار ہوں گے، اس لیے کہ چاروں امام رحمۃ اللہ علیہم اپنی تقلید اور غیر کی تقلید سے منع کر گئے ہیں ۔ سو جس کام سے دنیا میں انھوں نے امت کو منع کیا تھا وہ اس کام پر آخرت میں ضرور ہی خفا ہوں گے۔ اس سرکشی اور حکم عدولی کو اپنے مقلدوں سے ہر گز پسند نہیں کریں گے۔ (ترجمان)