وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُم بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ۩
اور آسمانوں میں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے اللہ ہی کے آگے سجدہ میں گرا ہوا ہے (یعنی اللہ کے احکام و قوانین کے آگے جھکے بغیر اسے چارہ نہیں) خوشی سے ہو یا مجبوری سے، اور (دیکھو) ان کے سایے صبح و شام (کس طرح گھٹتے بڑھتے اور کبھی ادھر کبھی ادھر ہوجایا کرتے ہیں)
1۔ وَ لِلّٰهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ.....: سجدے کا معنی ہے جسم کے سب سے اونچے اور باعزت حصے کو کسی کے سامنے نیچے سے نیچا لے جا کر اس کے سامنے اپنی انتہائی عاجزی کا اظہار کرنا۔ تو کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے سامنے اسی طرح اپنی عاجزی اور بے بسی کا اظہار کر رہی ہے۔ اس میں مسلمان اور کافر کا کوئی فرق نہیں، ہاں انسان کو تھوڑا سا اختیار جنت یا جہنم کے راستے پر چلنے کا دیا ہے، اس کے علاوہ اللہ کے سامنے نہ چاہتے ہوئے بھی ہر طرح سجدہ ریز ہے اور اللہ تعالیٰ کے اختیار کے مقابلے میں اپنے آپ پر اس کا اختیار ایک فی صد کیا ایک فی ہزار بھی نہیں، اگر کسی کو شک ہے تو ذرا اپنا سانس روک کر دکھائے، بھوک پیاس روک لے، پیشاب یا پاخانہ روک لے، بیماری آئے تو ڈٹ جائے کہ میں بیمار نہیں ہوتا، بڑھاپے کو آنے سے اور بالوں کو سفید ہونے سے روک دے، حرکت قلب بند ہو جائے تو اسے چلا کر دکھائے، گردے فیل ہو جائیں تو چالو کرکے دکھائے، ایک ٹانگ اٹھا سکتا ہے دوسری بھی اٹھا کر دکھائے، موت کے فرشتے کے سامنے اکڑ جائے، غرض ہر عاقل و غیر عاقل اور ان کے سائے خوشی و ناخوشی سے اللہ ہی کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ پھر ایسے بے بس سے فریاد کرنا، کسی کو داتا، کسی کو دستگیر، کسی کو غریب نواز، کسی کو مشکل کشا کہنا کتنی بڑی حماقت ہے۔ یہاں سورۂ حج کی آیت (۱۸) کا ترجمہ و تفسیر بھی ملاحظہ فرما لیں۔ 2۔ وَ ظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ : یعنی ان کے سایوں کا گھٹنا اور بڑھنا بھی اسی کے ارادہ و مشیت سے ہے۔ پہلے اور پچھلے پہر کا ذکر اس لیے کیا کہ ان وقتوں میں زمین پر ہر چیز کا سایہ نمایاں ہوتا ہے اور عبادت کے لحاظ سے یہ دونوں عمدہ وقت ہیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اور پرچھائیاں صبح و شام کے وقت زمین پر پسر (پھیل) جاتی ہیں، یہی ان کا سجدہ ہے۔‘‘ (موضح)