اللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنثَىٰ وَمَا تَغِيضُ الْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۖ وَكُلُّ شَيْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ
(اللہ کے علم کا تو یہ حال ہے کہ وہ) جانتا ہے ہر مادہ کے پیٹ میں کیا ہے۔ (یعنی کیسا بچہ ہے) اور کیوں پیٹ گھٹتے ہیں اور کیوں بڑھتے ہیں (یعنی درجہ بدرجہ شکم مادر میں کیسی کیسی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں) اس کے یہاں ہر چیز کا ایک اندازہ ٹھہرایا ہوا ہے۔
1۔ اَللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى ....: ’’ تَغِيْضُ ‘‘ ’’غَاضَ يَغِيْضُ‘‘ سے ہے اور یہ ’’نَقَصَ يَنْقُصُ‘‘ کا ہم معنی ہے۔ لازم اور متعدی دونوں معنوں میں آتا ہے، یعنی کم ہونا، کم کرنا۔ اسی طرح ’’ تَزْدَادُ ‘‘ باب افتعال ’’زَادَ يَزِيْدُ‘‘ کی طرح ہے، معنی ہے زیادہ ہونا اور زیادہ کرنا۔ یعنی حمل قرار پانے سے لے کر بچہ پیدا ہونے تک ہر چیز کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے اور ارحام (بچہ دانیوں) کا یہ علم اللہ تعالیٰ کی خاص صفات میں سے ہے، یعنی اس بات کا علم کہ مذکر ہے یا مؤنث، خوب صورت ہے یا بد صورت، بدبخت ہے یا نیک بخت، لمبی عمر والا ہے یا کم عمر۔ مزید دیکھیے سورۂ نجم (۳۲)، زمر (۶) اور مومنون (۱۲ تا ۱۴)۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَفَاتِحُ الْغَيْبِ خَمْسٌ : ﴿اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ وَ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ يَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ وَ مَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًا وَ مَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ﴾ )) ’’غیب کی کنجیاں پانچ ہیں (جنھیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا)۔‘‘ (پھر سورۂ لقمان کی آخری آیت میں مذکور چیزیں بیان فرمائیں)۔ [ بخاری، التفسیر، باب : ﴿وعندہ مفاتح الغیب....﴾: ۴۶۲۷] مزید وضاحت کے لیے سورۂ لقمان کی آخری آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ الٹرا ساؤنڈ کی حقیقت بھی وہیں ملاحظہ فرمائیں۔ 2۔ وَ مَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَ مَا تَزْدَادُ: اور جو رحم کم کرتے ہیں یا زیادہ کرتے ہیں، یعنی بچہ ضائع ہو جاتا ہے یا نامکمل پیدا ہوتا ہے یا مدتِ ولادت میں اضافہ یا کمی ہوتی ہے کہ بعض کے ہاں چھ یا نو ماہ بعد، بعض کے ہاں دس ماہ یا اس سے بھی زیادہ مدت کے بعد بچہ پیدا ہوتا ہے۔ 3۔ وَ كُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ : اللہ تعالیٰ کو ازل سے ابد تک ہر چیز کا علم ہے، اس نے ہر چیز کے متعلق پہلے ہی سب کچھ طے کر کے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے اور یہی تقدیر ہے۔ اس پر ایمان نہ ہو تو آدمی مسلمان نہیں ہوتا، فرمایا : ﴿ اِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ ﴾ [ القمر : ۴۹ ] ’’بے شک ہم نے جو بھی چیز ہے، ہم نے اسے ایک اندازے کے ساتھ پیدا کیا ہے۔‘‘ یعنی وہی جانتا ہے کہ کون سی چیز کتنی ہو گی اور کیسے ہو گی، اس اندازے میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی ۔