وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ ۗ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَىٰ ظُلْمِهِمْ ۖ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ
اور (اے پیغبر) یہ تم سے برائی کے لیے جلدی مچاتے ہیں۔ قبل اس کے کہ بھلائی کے لیے خواستگار ہوں۔ حالانکہ ان سے پہلے ایسی سرگزشتیں گزر چکی ہیں جن کی (دنیا میں) کہاوتیں بن گئیں۔ (مگر یہ ہیں کہ عبرت نہیں پکڑتے) تو اس میں شک نہیں کہ تیرا پروردگار لوگوں کے ظلم سے بڑا ہی درگزر کرنے والا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ تیرا پروردگار سزا دینے میں بڑا ہی سخت ہے۔
1۔ وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ … :’’ اَلسَّيِّئَةُ ‘‘ سے مراد بری حالت مثلاً عذاب اور ’’ الْحَسَنَةِ ‘‘ سے مراد اچھی حالت مثلاً عافیت اور خوش حالی ہے۔ ’’الْمَثُلٰتُ ‘‘ کی واحد ’’ مَثُلَةٌ ‘‘ بروزن ’’ سَمُرَةٌ ‘‘ ہے، معنی ہے سخت سزا اور رسوا کن عذاب، جو انسان پر اترے اور اسے دوسروں کے لیے برے کاموں سے باز رکھنے کے لیے مثال اور عبرت بن جائے۔ ’’اِسْتِعْجَالٌ‘‘ کسی چیز کا وقت آنے سے پہلے اسے لانے کا مطالبہ کرنا، یعنی ان کی سرکشی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ جھٹلانے اور مذاق اڑانے کے لیے تندرستی اور عافیت کے بجائے پہلے عذاب لانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مشرکین کے اس قسم کے مطالبوں کا قرآن میں کئی جگہ ذکر ہے، مثلاً سورۂ انفال (۳۲)، سورۂ عنکبوت (۵۳، ۵۴) اور سورۂ نمل (۴۶) ان آیات کا ترجمہ و تفسیر پڑھ لیں۔ 2۔ وَ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلٰتُ : جن میں ان کے لیے عبرت کا کافی سامان موجود ہے۔ موضح میں ہے کہ پہلے ہو چکیں ہیں کہاوتیں، یعنی ایسے عذاب آئے ہیں کہ ان کی کہاوتیں چلی ہیں۔ 3۔ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰى ظُلْمِهِمْ : ’’مَغْفِرَةٍ ‘‘ پر تنوین تعظیم کے لیے ہے، یعنی اللہ اتنی بڑی مغفرت والا ہے کہ لوگوں کے ظلم پر گرفت کرے تو زمین پر کوئی جان دار باقی نہ رہے، فرمایا : ﴿ وَ لَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا يَسْتَقْدِمُوْنَ﴾ [ النحل : ۶۱] ’’اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم کی وجہ سے پکڑے تو اس کے اوپر کوئی چلنے والا نہ چھوڑے اور لیکن وہ انھیں ایک مقرر وقت تک ڈھیل دیتا ہے، پھر جب ان کا وقت آ جاتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے رہتے ہیں اور نہ آگے بڑھتے ہیں۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ فاطر کی آخری آیت۔ وہ مہلت ہی دیے جاتا ہے کہ شاید باز آ جائیں، توبہ کر لیں اور اس کا عذاب بھی نہایت سخت ہے۔ معلوم ہوا کہ سلامتی اور امن کی راہ امید اور خوف میں اعتدال ہے، انسان اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی امید بھی رکھے اور اس کے عذاب سے ڈرتا بھی رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے عفو و درگزر کی امید نہ ہو تو کسی شخص کی زندگی خوش گوار نہ ہو اور اگر اس کے عذاب کا ڈر نہ ہو تو ہر شخص بے کھٹکے گناہ کرتا رہے۔