سورة یوسف - آیت 108

قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) تم کہہ دو میری راہ تو یہ ہے، میں اس روشنی کی بنا پر جو میرے سامنے ہے اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور (اس راہ میں) جن لوگوں نے میرے پیچھے قدم اٹھایا ہے وہ بھی (اسی طرح) بلاتے ہیں، اللہ کے لیے پاکی ہو، میں شرک کرنے والوں میں نہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْ اَدْعُوْا اِلَى اللّٰهِ : لفظ ’’ سَبِيْلٌ ‘‘ مؤنث بھی آتا ہے، جیسا کہ یہاں ہے اور مذکر بھی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوْهُ سَبِيْلًا ﴾ [ الأعراف : ۱۴۶ ] معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں کا راستہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت ہے، یعنی صرف اللہ کی عبادت اور اسی کے احکام کی اطاعت جو بذریعہ وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترے، اگر کوئی شخص اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کی دعوت دے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے احکام و مسائل کے بجائے کسی اور کی پیروی، مثلاً کسی امام یا پیر وغیرہ کی تقلید کی دعوت دے تو وہ نہ اللہ کی طرف دعوت دے رہا ہے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چل رہا ہے، کیونکہ جس چیز کی طرف وہ بلا رہا ہے وہ اللہ کی طرف سے اتری ہی نہیں، وہ محض انسانی رائے یا خیال ہے۔ عَلٰى بَصِيْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِيْ ....: ’’ بَصَارَةٌ ‘‘ آنکھوں کا دیکھنا اور ’’ بَصِيْرَةٍ ‘‘ دل سے اچھی طرح سمجھنا، یعنی میں اور میرے پیروکار خوب سوچ سمجھ کر اللہ کے راستے پر قائم ہیں۔ ’’وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ ‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر عیب اور خطا سے پاک ہے۔ اس اکیلے کی عبادت ہی حق ہے اور اس اکیلے کی وحی پر چلنا ہی حق ہے اور جو اس راہ کو چھوڑتا ہے وہ ایسی ہستیوں کی عبادت اور اطاعت کی وجہ سے مشرک ہے جو عیب اور خطا سے پاک نہیں ہیں۔ اس لیے میں کبھی ایسے مشرکوں میں شامل نہیں ہو سکتا۔