وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قَالَ أَبُوهُمْ إِنِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ ۖ لَوْلَا أَن تُفَنِّدُونِ
اور پھر جب (یہ لوگ یوسف کے حکم کے مطابق کرتا لے کر روانہ ہوئے اور) قافلہ نے مصر کی سرزمین چھوڑی تو (ادھر کنعان میں) ان کا باپ کہنے لگا، اگر تم لوگ یہ نہ کہنے لگو کہ بڑھاپے سے اس کی عقل ماری گئی تو میں کہوں گا مجھے یوسف کی مہک آرہی ہے (اور مجھے اس کا یقین ہے)
1۔ وَ لَمَّا فَصَلَتِ الْعِيْرُ.....: اس سے انبیاء کو اللہ تعالیٰ کے عطا کر دہ علم کا اندازہ ہوتا ہے اور اس حقیقت کا بھی کہ خود ان کے پاس کتنا علم ہوتا ہے۔ یہی قمیص تھی، اسی راستے سے آئی تھی، چند میل دور کنویں میں پڑے ہوئے لخت جگر کا علم نہ ہو سکا، نہ اس کی خوشبو آئی اور جب اللہ تعالیٰ نے بتایا تو قافلے کے نکلتے ہی یوسف علیہ السلام کی خوشبو آنا شروع ہو گئی۔ یہ واقعہ ان بے شمار دلائل میں سے ایک واضح دلیل ہے کہ انبیاء عالم الغیب نہیں ہوتے، ہاں جتنی بات انھیں وحی کے ذریعے سے بتائی جاتی ہے وہ انھیں معلوم ہو جاتی ہے اور یہی عام آدمی اور نبی کا فرق ہے کہ نبی کو وحی الٰہی ہوتی ہے، دوسرے اس نعمت سے محروم ہیں۔ اس بات کو شیخ سعدی نے کمال خوبی کے ساتھ ’’گلستان‘‘ میں نظم کیا ہے: یکے پر سید ازاں گم کردہ فرزند کہ اے روشن گہر پیر خردمند زمصرش بوئے پیراہن شمیدی چرا درچاہ کنعانش ندیدی بگفت احوال ما برقِ جہان است دمے پیدا و دیگردم نہان است گہے برطارمِ اعلی نشینم گہے برپشتِ پائے خود نہ بینیم ’’یعنی کسی نے اس فرزند کو گم کر دینے والے سے پوچھا کہ اے روشن نسب والے عقل مند بزرگ! تو نے مصر سے اس کی قمیص کی خوشبو پا لی، تونے اسے کنعان کے کنویں میں کیوں نہ دیکھا، اس نے کہا ہمارے (انبیاء کے) احوال کوندنے والی بجلی کی طرح ہیں، ایک دم ظاہر ہوتے اور دوسرے لمحے پوشیدہ ہو جاتے ہیں، کبھی ہم اعلیٰ و بلند مقام پر بیٹھے ہوتے ہیں، کبھی ہم اپنے پاؤں کی پشت پر (لگی چیز) نہیں دیکھتے۔‘‘ آخری شعر کے پہلے مصرع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کی طرف اشارہ ہے اور دوسرے میں جبریل علیہ السلام کے نماز کے دوران میں آ کر بتانے کی طرف کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے پر نجاست لگی ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتے نماز ہی میں اتار دیے۔ 2۔ لَوْ لَا اَنْ تُفَنِّدُوْنِ: یعنی اگر یہ نہ ہو کہ تم کہو گے کہ بڑھاپے اور یوسف کی محبت کی وجہ سے میری عقل میں خلل پڑ گیا ہے۔