سورة یوسف - آیت 91

قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَإِن كُنَّا لَخَاطِئِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(یہ سن کر بھائیوں کے سر شرم و ندامت سے جھک گئے) انہوں نے کہا بخدا اس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ نے تجھے ہم پر برتری دی اور بلاشبہ ہم سرتا سر قصور وار تھے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ ....: بھائیوں کے سامنے اپنے ظلم و ستم کا وہ سارا منظر آگیا جو ان کے ہاتھوں ہوا تھا تو انھوں نے قسم کھا کر اعتراف کیا کہ یقیناً اللہ تعالیٰ نے آپ کو صبر، تقویٰ اور دوسری صفات حسنہ کی وجہ سے ہم پر برتری اور فوقیت عطا فرمائی ہے۔ ’’ وَ اِنْ كُنَّا ‘‘ اصل میں ’’اِنَّا كُنَّا‘‘ تھا، جس کی دلیل ’’خَاطِئِيْنَ‘‘ پر آنے والا لام ہے۔ ’’اِنَّ‘‘ اور لام کے ساتھ تاکید بھی قسم ہی کی ایک صورت ہے کہ یقیناً ہم آپ پرظلم کرکے جانتے بوجھتے ہوئے غلط اور گناہ کا کام کرنے والے تھے۔ ’’خَاطِئِيْنَ‘‘ اور ’’ مُخْطِئِيْنَ ‘‘ کے فرق کے لیے دیکھیے آیت (۲۹) کی تفسیر۔ بھائیوں کے اعتراف گناہ کے بعد یوسف علیہ السلام کی سینے کی وسعت اور حوصلہ مندی دیکھیے، ابھی انھوں نے صرف گناہ کا اعتراف اور عذر ہی کیا ہے، معافی مانگنے کی نوبت آنے سے پہلے ہی بول اٹھے : ﴿ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ﴾ کہ آج تم پر کوئی ملامت نہیں۔