سورة یوسف - آیت 90

قَالُوا أَإِنَّكَ لَأَنتَ يُوسُفُ ۖ قَالَ أَنَا يُوسُفُ وَهَٰذَا أَخِي ۖ قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا ۖ إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(یہ سن کر بھائی چونک اٹھے اور اب جو عزیز کی صورت اور آواز پر غور کیا تو ایک نیا خیال ان کے اندر پیدا ہوگیا) انہوں نے کہا کیا فی الحقیقت تم ہی یوسف ہو؟ یوسف نے کہا، ہاں میں یوسف ہوں اور یہ (بنیامین) میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر احسان کیا، اور حقیقت یہ ہے کہ جو کوئی (برائیوں سے) بچتا اور (مصیبتوں میں) ثابت قدم رہتا ہے تو اللہ (کا قانون یہ ہے کہ وہ) نیک عملوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالُوْا ءَاِنَّكَ لَاَنْتَ يُوْسُفُ : بھائیوں کو یہ سن کر دھچکا لگا کہ برسوں پرانی بات جو ہمارے سوا کوئی نہیں جانتا، اس اجنبی سرزمین میں جاننے والا یہ کون نکل آیا؟ پھر ان کے نقوش پر غور کرتے ہوئے فوراً نتیجے پر پہنچ گئے کہ یہ تو ہمارا وہی ستم رسیدہ بھائی یوسف ہے، پھر حیرت، تعجب اور دہشت کے ملے جملے جذبات کے ساتھ اس بات کا سوال کیا جسے تاکید کے تین طریقوں سے یقینی بھی قرار دیا ’’کیا یقیناً واقعی تو ہی یوسف ہے۔‘‘ ’’ اِنَّ ‘‘ ، لام تاکید اور ’’ اِنَّكَ ‘‘ کے بعد پھر ’’ أَنْتَ ‘‘ کے ساتھ تاکید، اتنے یقین کے باوجود سوال ہے جس میں کچھ شک بھی ہوتا ہے۔ قَالَ اَنَا يُوْسُفُ وَ هٰذَا اَخِيْ: فرمایا، ہاں میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ ان دو لفظوں میں یوسف علیہ السلام نے وہ ساری داستان دہرا دی جو ان بھائیوں کے ہاتھوں ان پر گزری تھی، جو پوری طرح بیان میں آ بھی نہیں سکتی تھی اور یوسف علیہ السلام کے عفو و درگزر کے مطابق نہ اس کا موقع تھا۔ قَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَيْنَا: کہ مصیبت سے نجات دے کر دونوں کو ملا دیا اور اس بلند مرتبہ مقام پر پہنچا دیا جسے تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔ اِنَّهٗ مَنْ يَّتَّقِ وَ يَصْبِرْ : یعنی حرام کام اور نافرمانی سے بچتا رہے اور اللہ کے احکام کی پابندی اور پیش آنے والی مصیبتوں اور اللہ کی تقدیر پر صبر کرے۔ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ : شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’جس پر تکلیف پڑے اور وہ شرع سے باہر نہ ہو اور گھبرائے نہیں تو آخر بلا (یعنی تکلیف) سے زیادہ عطا ہے۔‘‘ (موضح)