قَالُوا تَاللَّهِ تَفْتَأُ تَذْكُرُ يُوسُفَ حَتَّىٰ تَكُونَ حَرَضًا أَوْ تَكُونَ مِنَ الْهَالِكِينَ
(باپ کا یہ حال دیکھ کر بیٹے) کہنے لگے بخدا تم تو ہمیشہ ایسے ہی رہو گے کہ یوسف کی یاد میں لگے رہو، یہاں تک کہ (اسی غم میں) گھل جاؤ یا اپنے کو ہلاک کردو۔
قَالُوْا تَاللّٰهِ تَفْتَؤُا.....: تاء قسم کے لیے ہوتی ہے، لفظ ’’اللہ‘‘ پر آتی ہے اور عموماً ایسے موقع پر قسم کے لیے آتی ہے جس میں کوئی تعجب ہو۔ ’’فَتِئَ يَفْتَؤُ‘‘ ہٹ جانا، بھول جانا۔ اس سے پہلے عموماً ’’مَا‘‘ آتا ہے اور معنی ہمیشہ رہنا، نہ بھولنا ہوتا ہے، یہاں بھی اصل ’’ مَا تَفْتَؤُ‘‘ تھا ’’ مَا ‘‘ کو معلوم ہونے کی وجہ سے حذف کر دیا ہے، یعنی تو ہمیشہ یوسف کو یاد کرتا رہے گا، اسے نہیں بھولے گا، اسے یاد کرنے سے باز نہیں آئے گا۔ بیٹوں اور پوتوں کو باپ کی حالت زار دیکھ کر رحم آتا تھا، جب ان کا غم اس حد تک پہنچ گیا تو انھوں نے باپ سے کہا کہ اللہ کی قسم! آپ یوسف کو اسی طرح ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے حتیٰ کہ گھل گھل کر مرنے کے قریب ہو جائیں گے، یا ہلاک ہونے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ گویا وہ انھیں صبر کی تلقین اور اس قدر غم پر ملامت کر رہے تھے۔