فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا ۖ قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُم مَّوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ وَمِن قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِي يُوسُفَ ۖ فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّىٰ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّهُ لِي ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ
پھر جب وہ یوسف سے مایوس ہوگئے (کہ یہ ماننے والا نہیں) تو مشورہ کے لیے (ایک جگہ) اکیلے میں بیٹھ گئے، جو ان میں بڑا تھا اس نے کہا تم جانتے ہو کہ باپ نے (بنیامین کے بارے میں) اللہ کو شاہد ٹھہرا کر تم سے عہد لیا ہے اور اس سے پہلے یوسف کے معاملہ میں بڑی تقصیر ہوچکی ہے۔ پس میں تو اب اس ملک سے ٹلنے والا نہیں جب تک خود باپ مجھے حکم نہ دے یا پھر اللہ میرے لیے کوئی دوسرا فیصلہ کردے، اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
1۔ فَلَمَّا اسْتَيْـَٔسُوْا مِنْهُ خَلَصُوْا نَجِيًّا: ’’ اسْتَيْـَٔسُوْا ‘‘ یہاں ’’ يَئِسُوْا‘‘ (ناامید ہو گئے) کے معنی ہی میں ہے۔ باب استفعال مبالغہ کے لیے ہے، یعنی بالکل نا امید ہو گئے، جیسا کہ’’عَجِبَ‘‘ اور ’’اِسْتَعْجَبَ‘‘ ، ’’سَخِرَ‘‘ اور ’’ اِسْتَسْخَرَ ‘‘ میں سین اور تاء محض مبالغہ کے لیے ہیں، معنی ایک ہی ہے۔ اس سے پہلے (آیت ۳۲) ’’ اِسْتَعْصَمَ‘‘ میں بھی یہی نکتہ ہے۔ ’’ خَلَصُوْا ‘‘ یعنی کوئی اور ان میں موجود نہ تھا، اکیلے ہو کر مشورہ کرنے لگے۔ ’’ نَجِيًّا ‘‘ ’’فَعِيْلٌ‘‘ کے وزن پر ہے، مشورہ، سرگوشی کرنے والے وغیرہ، یہ وزن واحد، تثنیہ، جمع اور مذکر و مؤنث سب کے لیے اسی طرح آتا ہے، اس لیے ’’خَلَصُوْا ‘‘ کے ساتھ واحد ہی آیا ہے۔ 2۔ قَالَ كَبِيْرُهُمْ اَلَمْ تَعْلَمُوْا اَنَّ اَبَاكُمْ ....: ان کے بڑے نے کہا (مراد عمر میں بڑا ہے یا جو علم و فہم میں ان کا بڑا اور امیر تھا) کیا تمھیں معلوم نہیں کہ والد نے تم سے قسموں کے ساتھ پختہ عہد لیا تھا کہ بھائی کو اپنے ساتھ ضرور واپس لانا اور اس سے پہلے یوسف کے بارے میں جو کوتاہی تم نے کی، اب میں والد کے سامنے کیسے جاؤں گا، اپنے متعلق تو میں نے طے کر لیا ہے کہ میں اس سرزمین سے ہر گز جدا نہیں ہوں گا جب تک میرے والد مجھے واپسی کی اجازت نہ دیں، یا اللہ میرے بارے میں کوئی فیصلہ کرے کہ بھائی کی رہائی کی کوئی صورت نکل آئے یا میری موت آ جائے۔