قَالَ هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلَّا كَمَا أَمِنتُكُمْ عَلَىٰ أَخِيهِ مِن قَبْلُ ۖ فَاللَّهُ خَيْرٌ حَافِظًا ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
باپ نے (یہ سن کر) کہا کیا میں اس کے لیے اسی طرح تمہارا اعتبار کروں جس طرح پہلے اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں کرچکا ہوں؟ سو خدا ہی سب سے بہتر حفاظت کرنے والا ہے اور اس سے بڑھ کر رحم کرنے والا کوئی نہیں۔
1۔ قَالَ هَلْ اٰمَنُكُمْ عَلَيْهِ.....: فرمایا، تم جب یوسف علیہ السلام کو لے گئے تھے تب بھی تم نے یہی کہا تھا کہ ’’اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ‘‘ پھر تم نے اس کی اچھی حفاظت کی کہ آج تک اس بے چارے کی کوئی خیر خبر نہیں، تو کیا اس کے متعلق بھی تمھاری حفاظت کا ایسا ہی اعتماد کروں، جیسا اس سے پہلے اس کے بھائی کے متعلق تم پر اعتبار کیا تھا۔ 2۔ فَاللّٰهُ خَيْرٌ حٰفِظًا....: یعنی میں اسے بحالتِ مجبوری غلہ کی ضرورت کے پیش نظر تمھارے ساتھ بھیج رہا ہوں، سو میں اسے تمھاری حفاظت میں نہیں بلکہ اللہ کی حفاظت میں دیتا ہوں، وہ ارحم الراحمین ہی اپنی مہربانی سے اس کی حفاظت فرمائے گا۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کو بھائیوں کے ساتھ بھیجتے وقت صرف یہ کہا تھا : ﴿ وَ اَخَافُ اَنْ يَّاْكُلَهُ الذِّئْبُ ﴾ [ یوسف : ۱۳ ] (اور میں ڈرتا ہوں کہ اسے کوئی بھیڑیا کھا جائے) اب جو اس کے بھائی کو ’’ فَاللّٰهُ خَيْرٌ حٰفِظًا وَّ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ ‘‘ کہتے ہوئے اللہ کی حفاظت میں دیا تو نہ صرف یوسف کا بھائی بلکہ یوسف علیہ السلام بھی مل گئے۔