وَقَالَ لِفِتْيَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِي رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُوا إِلَىٰ أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
اور یوسف نے اپنے خدمتداروں کو حکم دیا ان لوگوں کی پونجی (جس کے بدلے میں انہوں نے غلہ مول لیا ہے) انہی کی بوریوں میں رکھ دو، جب یہ لوگ اپنے گھر کی طرف لوٹیں گے تو بہت ممکن ہے اپنی پونجی دیکھ کر پہچان لیں (کہ لوٹا دی گئی) اور پھر عجب نہیں کہ دوبارہ آئیں۔
وَ قَالَ لِفِتْيٰنِهِ.....: ’’ فِتْيَانٌ‘‘ ’’فَتًي‘‘ کی جمع ہے، دیکھیے (آیت ۳۶) ’’رِحَالٌ‘‘ ’’رَحْلٌ‘‘ کی جمع ہے، وہ کجاوہ جو اونٹ پر سوار ہونے کے لیے رکھا جاتا ہے اور اس سامان کو بھی کہہ لیتے ہیں جو اونٹ پر رکھا جائے، اس لیے اونٹ کو ’’رَاحِلَةٌ‘‘ کہہ لیتے ہیں۔ ’’بِضَاعَةٌ‘‘ وہ رقم یا سامان جس کے ساتھ کوئی چیز خریدی جائے، یعنی اپنے جوانوں کو وہ رقم یا سازوسامان جو وہ غلہ خریدنے کے لیے قیمت کے طور پر لائے تھے، ان کو بتائے بغیر بطور احسان ان کی بوریوں میں رکھ دینے کا حکم دے دیا اور اس لیے بھی کہ بھائیوں کی حالت دیکھ کرگھر کی تنگ دستی کا اندازہ ہو گیا، جس کا ذکر تیسری دفعہ آنے پر انھوں نے خود کیا۔ دیکھیے آیت (۸۸) ’’ لَعَلَّهُمْ يَعْرِفُوْنَهَا ‘‘ شاید وہ ان درہموں وغیرہ کو ان کی ساخت یا مہر یا تھیلیوں سے پہچان لیں اور اس احسان اوررقم کی موجودگی کی وجہ سے دوبارہ آ جائیں۔