قَالَ اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ۖ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ
یوسف نے کہا مملکت کے خزانوں پر مجھے مختار کردیجیے، میں حفاظت کرسکتا ہوں، اور میں اس کام کا جاننے والا ہوں (چنانچہ بادشاہ نے اسے مملکت کا مختار کردیا)
1۔ قَالَ اجْعَلْنِيْ عَلٰى خَزَآىِٕنِ الْاَرْضِ ....: ’’ الْاَرْضِ ‘‘ میں الف لام عہد کا ہے ’’اس زمین‘‘ یعنی مجھے سرزمین مصر کے خزائن پر مقرر کر دیجیے، کیونکہ میں ان کی پوری طرح حفاظت کر سکتا ہوں اور اس کام کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ ’’خَزَآىِٕنِ‘‘ ’’خِزَانَةٌ ‘‘ کی جمع ہے، اس سے مراد یا تو ان گوداموں کا نظام ہے جو خوش حالی کے سالوں کے لیے تعمیر کیے جائیں گے اور غلہ سنبھالیں گے اور قحط کے سالوں میں ان سے غلہ تقسیم کیا جائے گا، کیونکہ اس کے لیے بہت بڑی منصوبہ بندی، محنت و امانت اور حساب کتاب میں مہارت کی ضرورت ہے، یا مراد سلطنت کے تمام ذرائع آمدنی و پیداوار ہیں۔ قرآن میں ’’خزائن‘‘ کا لفظ عموماً اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے : ﴿ وَ لِلّٰهِ خَزَآىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ﴾ [ المنافقون : ۷ ] ’’حالانکہ آسمانوں کے اور زمین کے خزانے اللہ ہی کے ہیں۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ انعام (۵۰)، بنی اسرائیل (۱۰۰)، صٓ (۹)، طور (۳۷) اور حجر (۲۱) اور یہی معنی یہاں صحیح ہے، کیونکہ خوش حالی کے سالوں میں گوداموں کی تعمیر، پھر سات سال تک پورے ملک کے لوگوں سے ضرورت سے زائد گندم خریدنا، حکومت کی آمدنی کے تمام ذرائع پر مکمل اختیار کے بغیر ممکن نہ تھا، تاکہ ملک بھی چلتا رہے اور جنس کی خریداری کے لیے رقم بھی مہیا ہو سکے اور گودام بھی تعمیر ہو سکیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب یوسف علیہ السلام نے دیکھا کہ بادشاہ کی نگاہ میں ان کی قدر و منزلت بڑھ گئی ہے اور وہ انھیں ہر طرح کے اختیارات سونپنے کو تیار ہے تو اپنی اہلیت پر اعتماد کرتے ہوئے یہ پیش کش مناسب سمجھی کہ سلطنت کے تمام ذرائع آمدنی و پیداوار میرے حوالے کر دیے جائیں، بلکہ آئندہ آیات (۱۰۰، ۱۰۱) سے تو معلوم ہوتا ہے کہ آخر کار مصر میں یوسف علیہ السلام ہی تخت نشین ہو گئے تھے، یا کم از کم عملاً حکومت انھی کی تھی اور یہ پیش کش اس لیے بھی تھی کہ یوسف علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی تھے، اس ملک کے تمام اختیارات پر قبضہ ان کے لیے اس لیے بھی ضروری تھا کہ وہ توحید کی اشاعت اور شرک کا استیصال کر سکیں۔ 2۔ یہاں ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یوسف علیہ السلام نے خود عہدہ مانگا جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عہدہ مانگنے یا اس کی حرص رکھنے والے کے متعلق فرمایا : (( لاَ نَسْتَعْمِلُ عَلٰی عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَهٗ)) [ بخاری، الإجارۃ، باب استئجار الرجل الصالح....: ۲۲۶۱ ]’’ہم ایسے شخص کو ہر گز عہدہ نہیں دیں گے جو اس کا ارادہ رکھے۔ ‘‘اس کے کئی جواب ہیں جن میں سے سب سے صحیح اور مضبوط جواب یہ ہے کہ بادشاہ نے یوسف علیہ السلام کو عہدے پر تو فائز کر ہی دیا تھا : ﴿ اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ ﴾ [یوسف : ۵۴ ] ’’بلاشبہ تو آج ہمارے ہاں صاحب اقتدار، امانت دار ہے۔‘‘ جس طرح آج کل پہلے وزیر چن لیے جاتے ہیں اور پھر وہ اپنے لیے شعبے کا انتخاب خود کرتے ہیں، اسی طرح جب بادشاہ نے انھیں اپنے ہاں پوری طرح صاحب اقتدار اور امانت دار قرار دے دیا تو یوسف علیہ السلام جانتے تھے کہ اس منصب کے تقاضے خزانے پر مکمل اختیار کے بغیر پورے ہو ہی نہیں سکتے، سو ان کے لیے یہ اختیار طلب کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ خلاصہ یہ کہ انھوں نے عہدہ ہر گز نہیں مانگا، بلکہ انھیں جب عہدے سے نوازا گیا تو انھوں نے اس کی عملی صورت پیش فرمائی۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر کسی کو اصرار ہو کہ انھوں نے عہدہ مانگا ہے تو ٹھیک ہے جو شخص یوسف علیہ السلام جیسے مقام پر فائز ہو وہ بے شک عہدہ مانگ لے، جو ان جیسے اوصاف رکھتا ہو، انسان کی سب سے منہ زور قوت (جنس) سمیت تمام بہیمانہ قوتوں مثلاً غصے، خیانت اور ظلم وغیرہ پر ان کی طرح قابو رکھتا ہو اور نبوت سے بھی سرفراز ہو، کیونکہ ایسی صورت میں نہ اس عہدے کی ذمہ داری کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے نہ خیانت کا۔ دوسرا شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرے اور آرام سے رہے، خود اپنے آپ کو اس آزمائش میں نہ ڈالے جس کا انجام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں واضح طور پر بتا دیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا مِنْ أَمِيْرِ عَشَرَةٍ إِلاَّ يُؤْتٰی بِهٖ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَغْلُوْلاً لَا يَفُكُّهٗ إِلاَّ الْعَدْلُ أَوْ يُوْبِقُهُ الْجَوْرُ)) [ مسند أحمد :2؍431، ح : ۹۵۸۶۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ :6؍237، ح : ۲۶۲۱ ]’’کوئی بھی دس آدمیوں کا امیر ہو اسے طوق پہنا کر لایا جائے گا، عدل کے سوا کوئی چیز اسے نہیں چھڑائے گی، یا ظلم اسے ہلاک کر دے گا۔‘‘