وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
میں اپنے نفس کی پاکی کا دعوی نہیں کرتی، آدمی کا نفس تو برائی کے لئیے بڑا ہی ابھارنے والا ہے (اس کے غلبہ سے بچنا آسان نہیں) مگر ہاں اسی حال میں کہ میرا پروردگار رحم کرے، بلاشبہ میرا پروردگار بڑا ہی بخشنے والا بڑا ہی رحم کرنے والا ہے۔
1۔ وَ مَا اُبَرِّئُ نَفْسِيْ....: یہ عزیز مصر کی بیوی کے کلام کا آخری حصہ ہے۔ گویا عزیز مصر کی بیوی یہ کہنا چاہتی ہے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اپنے خاوند کی کوئی بڑی خیانت نہیں کی، بے شک میں نے یوسف کو پھسلانا چاہا تھا مگر کامیاب نہ ہو سکی، ہاں میں اپنے آپ کو پاک باز قرار نہیں دیتی، مجھ سے جتنی غلطی ہوئی اس کا اقرار و اعتراف کرتی ہوں، نفس کی شرارتوں سے تو وہی محفوظ رہ سکتا ہے جس پر اللہ کی خاص رحمت ہو (مراد یوسف علیہ السلام ہیں)۔ 2۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عزیز مصر کی بیوی اللہ تعالیٰ کو اور اس کی صفات غفور و رحیم کو مانتی تھی اور نیکی اور گناہ کو بھی سمجھتی تھی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اس کا قول نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ تو کافرہ تھی۔ جواب اس کا یہ ہے کہ اول تو اس کے کفر کی کوئی دلیل ہمارے سامنے نہیں اور اگر ہو بھی تو مکہ کے کافر اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے، زنا اور دوسرے قبائح کو گناہ سمجھتے تھے، پھر بھی مشرک تھے۔ آج کل بے شمار کلمہ گو آپ کو ایسے مل جائیں گے جو اللہ کو مانتے، اس سے استغفار کرتے اور گناہ کو گناہ سمجھتے ہیں، مگر پھر بھی سرتاپا شرک میں مبتلا ہیں۔