سورة یوسف - آیت 44

قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ ۖ وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِيلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

درباریوں نے (غورو فکر کے بعد) کہا یہ پریشان خواب و خیالات ہیں (کوئی ایسی بات نہیں جس کا کوئی خاص مطلب ہو) ہم سچے خوابوں کا مطلب تو حل کرسکتے ہیں، لیکن) پریشان خوابوں کا حل نہیں جانتے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالُوْا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ ....: ’’ اَضْغَاثُ ‘‘ ’’ضِغْثٌ‘‘ کی جمع ہے، آپ گھاس کا ایک مُٹھا اکھاڑیں، اس میں ملا جلا جو کچھ ہاتھ میں آئے اسے ’’ضِغْثٌ‘‘ کہتے ہیں، یعنی یہ خوابوں کی ملی جلی پریشان باتیں ہیں، کوئی مرتب یا واضح خواب نہیں اور ایسے خوابوں کی تعبیر ہم نہیں جانتے۔ علم تعبیر میں مہارت کے دعوؤں کو قائم رکھنے کے لیے انھوں نے خواب ہی کو پریشان خیالوں کا مجموعہ قرار دے دیا، جیسا کہ کہاوت ہے ’’ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔‘‘