مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
تم اس کے سوا جن ہستیوں کی بندگی کرتے ہو ان کی حقیقت اس سے زیادہ کیا ہے کہ محض چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نہیں اتاری، حکومت تو اللہ ہی کے لیے ہے، اس کا فرمان یہ ہے کہ صرف اسی کی بندگی کرو، اور کسی کی نہ کرو، یہی سیدھا دین ہے مگر اکثر آدمی ایسے ہیں جو نہیں جانتے۔
مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ اِلَّا اَسْمَآءً.....: ان کے ذہن میں ایک رب اور کئی ارباب کے موازنے کی سوچ ابھارنے کے بعد اب صاف لفظوں میں کئی ارباب کا باطل ہونا بیان فرمایا کہ تم جن معبودوں کی عبادت کرتے ہو حقیقت میں وہ کہیں موجود ہی نہیں ہیں، محض فرضی اور خیالی چیزیں ہیں، جن کے نام تم نے اور تمھارے آبا و اجداد نے رکھ لیے ہیں۔ حکم تو اللہ کے سوا کسی کا ہے ہی نہیں، نہ قدری حکم نہ شرعی، یعنی نہ کائنات کے نظام میں اس کے سوا کسی کا کوئی حکم چلتا ہے، مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ سورج کو چلنے کا حکم دے اور یہ اسے روک دے، یا وہ کسی کو مارنا چاہے اور یہ اسے مرنے نہ دے اور نہ شریعت اور عبادت میں اس کے سوا کسی کو اپنا حکم چلانے کی اجازت ہے، اس کا حکم ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو، یہی سیدھا اور محکم و مضبوط دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے، اس لیے وہ شرک کے گورکھ دھندے میں پڑے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کی یہ تقریر ملت ابراہیم، یعنی اسلام کی بہترین مختصر ترجمانی ہے۔