قَالَ لَا يَأْتِيكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِ إِلَّا نَبَّأْتُكُمَا بِتَأْوِيلِهِ قَبْلَ أَن يَأْتِيَكُمَا ۚ ذَٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِي رَبِّي ۚ إِنِّي تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ
یوسف نے کہا (گھبراؤ نہیں) قبل اس کے کہ تمہارا مقررہ کھانا تم تک پہنچے، میں تمہارے خوابوں کا مآل تمہیں بتلا دوں گا، اس بات کا علم بھی من جملہ ان باتوں کے ہے جو مجھے میرے پروردگار نے تعلیم فرمائی ہیں، میں نے ان لوگوں کی ملت ترک کی جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں۔
1۔ قَالَ لَا يَاْتِيْكُمَا طَعَامٌ.....: یوسف علیہ السلام اس سے پہلے بھی اللہ کے دین اور توحید پر قائم تھے، قید میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکمت رکھی کہ دنیا کے معاملات سے فراغت اور خلوت نصیب ہوئی، ذکر وفکر کا موقع زیادہ ملا، کفار کے تعلق سے دل خالی ہوا تو سینہ علم نبوت کے نور سے اور زیادہ روشن ہو گیا۔ اب ان دونوں کو یوسف علیہ السلام سے خواب کی تعبیر پوچھنے کی ضرورت پڑی تو یوسف علیہ السلام نے ضروری سمجھا کہ پہلے انھیں توحید اور آخرت پر ایمان کی دعوت دیں، بعد میں خواب کی تعبیر بتائیں، اس لیے ان سے بات کا کچھ وقت لے لیا، مگر ساتھ ہی ان کی تسلی کر دی تاکہ وہ گھبرا نہ جائیں، کہا کہ کھانا جو تمھیں دیا جاتا ہے، اس کے آنے سے پہلے پہلے میں تمھیں ہر حال میں تعبیر بتا دوں گا۔ کھانا آنے سے پہلے پہلے کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے کا وقت قریب ہی تھا۔ 2۔ ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِيْ رَبِّيْ ....: ’’ ذٰلِكُمَا ‘‘ کی تفسیر کے لیے دیکھیں آیت (۳۲) یعنی خواب کی تعبیر ان علوم میں سے ایک علم ہے جو اللہ نے مجھے سکھائے ہیں، مثلاً شریعت، حکمت، معیشت، امانت وغیرہ۔ مطلب یہ کہ میں تعبیر اندازے اور اٹکل سے نہیں بلکہ حقیقی علم کے ساتھ کروں گا۔ مصر کے کاہن اور درباری مشیر علم تعبیر میں مہارت رکھتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو یہ علم خاص طور پر عطا فرمایا، تاکہ وقت آنے پر ظاہر ہو کہ اللہ تعالیٰ کے نبی کو عطا کر دہ علم میں اور دوسرے کسی بھی بڑے سے بڑے عالم کے علم میں کیا فرق ہوتا ہے، گویا یہ یوسف علیہ السلام کو عطا کر دہ ایک معجزہ بھی تھا۔ یہاں یہ سوال خودبخود پیدا ہونا تھا کہ یہ علوم جن میں سے علم تعبیر بھی ہے، آپ کو کیسے حاصل ہوئے؟ اس کے جواب میں یوسف علیہ السلام نے اس پورے معاشرے میں سے اپنے پر اس نعمت کے اسباب بیان فرمائے، پھر ان کو نہایت حکیمانہ طریقے سے دعوت توحید دی۔ چنانچہ پہلی بات یہ فرمائی کہ یہ علوم مجھے میرے رب تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں،( ’’ اِنِّيْ تَرَكْتُ ‘‘ میں ’’اِنَّ‘‘ سبب بیان کرنے کے لیے ہے) اس لیے کہ میں نے ان لوگوں کی ملت اور ان کے دین کو ان میں رہنے اور جوان ہونے کے باوجود چھوڑے رکھا، کبھی اختیار ہی نہیں کیا، جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے بھی وہ منکر ہیں، کیونکہ ایسے لوگ ان علوم کے لائق ہی نہیں ہوتے۔