سورة یوسف - آیت 36

وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيَانِ ۖ قَالَ أَحَدُهُمَا إِنِّي أَرَانِي أَعْصِرُ خَمْرًا ۖ وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّي أَرَانِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ ۖ نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) ایسا ہوا کہ یوسف کے ساتھ جو جوان آدمی اور بھی قید خانے میں داخل ہوئے، ان میں سے ایک نے (یوسف سے) کہا، مجھے (خواب میں) ایسا دکھائی دیا کہ میں شراب (بنانے) کے لیے (انگور کا عرق) نچوڑ رہا ہوں۔ دوسرے نے کہا، مجھے ایسا دکھائی دیا ہے کہ سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندا اسے کھار رہے ہیں (اور دونوں نے درخواست کی کہ) ہمیں بتلا دو اس بات کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ تم بڑے نیک آدمی ہو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ دَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيٰنِ.....: ’’ فَتَيٰنِ ‘‘ ’’ فَتًي‘‘ کی تثنیہ ہے، دو نوجوان، یہ لفظ عام طور پر غلام یا خادم پر بھی بول لیا جاتا ہے۔ یہ دونوں بادشاہ کے خاص خادم تھے، بہت جلد دونوں یوسف علیہ السلام کے حسن اخلاق سے متاثر اور ان سے مانوس ہو گئے۔ یوسف علیہ السلام کے ہر ایک کی بے لوث خدمت کرنے نے ان پر یہ حقیقت واضح کر دی کہ یہ بندہ ہر ایک کی خیر خواہی اور خدمت کسی بھی معاوضے کی امید یا کسی طمع کے بغیر کرتا ہے، اسی کا نام احسان ہے اور ایسا کرنے والا محسن ہوتا ہے، جیسا کہ بنی اسرائیل نے قارون سے کہا تھا : ﴿ وَ اَحْسِنْ كَمَا اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَيْكَ ﴾ [ القصص : ۷۷ ] ’’اور احسان کر جیسے اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے۔‘‘ اور حقیقت یہ ہے کہ اپنی نیکی اور ہمدردی کی وجہ سے ایسا شخص خودبخود ہی ہر ایک کی نگاہ میں آ جاتا ہے کہ یہ نیک اور اچھا آدمی ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میں یہ صفت بطور خاص پائی جاتی تھی، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات مثلاً دوسروں کا بوجھ اٹھانا، مہمان نوازی کرنا، مصیبت میں لوگوں کی مدد کرنا، لوگوں کے لیے ذریعۂ معاش تلاش اور مہیا کرنا، سچ کہنا وغیرہ کی تصدیق ہماری ماں خدیجہ رضی اللہ عنھا نے کی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صفات کی تصدیق ابن دغنہ نے کی۔ [ بخاری، الوحي، کیف بدء الوحي : ۳، و مناقب الأنصار، باب ہجرۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ....: ۳۹۰۵ ] یہ لوگ صرف نماز روزے ہی کے نیک نہ تھے، بلکہ اس کے ساتھ لوگوں کے خیر خواہ بھی تھے، یہی بندوں کے ساتھ احسان ہے۔ اب ان دونوں نے خواب دیکھا تو پوری جیل میں ان کی نگاہ صرف یوسف علیہ السلام پر پڑی اور انھوں نے تعبیر کے لیے انھی کو منتخب کرنے کی وجہ بھی صاف لفظوں میں بیان کر دی : ﴿ نَبِّئْنَا بِتَاْوِيْلِهٖ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ ﴾ یعنی آپ ہمیں اس کی تعبیر بتائیں، کیونکہ بے شک ہم آپ کو احسان کرنے والوں سے دیکھتے ہیں۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ خواب کی تعبیر بہت اچھی کرتے ہیں، شاید اس سے پہلے بھی یوسف علیہ السلام نے کچھ تعبیریں کی ہوں جو درست نکلی ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ علم خاص طور پر دیا تھا۔ احسان کے یہ دونوں معنی بندوں پر احسان کے ہیں، ایک احسان اللہ تعالیٰ کی عبادت میں بھی ہوتا ہے جس کا ذکر حدیث جبریل علیہ السلام میں ہے، فرمایا: (( أَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ كَأَنَّكَ تَرَاهٗ فَإِنْ لَّمْ تَكُنْ تَرَاهٗ فَإِنَّهٗ يَرَاكَ)) [ بخاری، الإیمان، باب سؤال جبریل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ۵۰] ’’تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، سو اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمھیں دیکھتا ہے۔‘‘ ہو سکتا ہے ان قیدیوں نے یوسف علیہ السلام کی نماز، عبادت اور ذکر الٰہی میں اللہ سے تعلق کو دیکھ کر ان کے محسن اور نیک ہونے کا یقین کر لیا ہو کہ ان کی عبادت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شخص واقعی اس طرح توجہ اور محویت سے عبادت کر رہا ہے، گویا اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔