ثُمَّ بَدَا لَهُم مِّن بَعْدِ مَا رَأَوُا الْآيَاتِ لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّىٰ حِينٍ
پھر (ایسا ہوا کہ) اگرچہ وہ لوگ (یعنی عزیز اور اس کے خاندان کے آدمی) نشانیاں دیکھ چکے تھے (یعنی یوسف کی پاک دامنی کی نشانیاں) پھر بھی انہیں یہی بات ٹھیک دکھائی دی کہ ایک خاص وقت تک کے لیے یوسف کو قید میں ڈال دیں۔
ثُمَّ بَدَا لَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ.....: جب شہر میں ان واقعات کا چرچا ہوا اور عزیز مصر کی بیوی کی محبت میں دیوانگی اور یوسف علیہ السلام کی پاک دامنی پر استقامت کی شہرت پھیلی تو اہل حل و عقد اس نتیجے پر پہنچے کہ یوسف علیہ السلام کو ہر صورت کچھ وقت کے لیے قید کر دیں، تاکہ ایک گھر میں رہنے کی وجہ سے میل ملاقات ختم ہو جائے اور آہستہ آہستہ اس واقعہ کی شہرت بھی ختم ہوجائے۔ اس فیصلے سے عزیز مصر پر اس کی بیوی اور دوسری عورتوں کا تسلط اور اس کی بے غیرتی اور دیوثی بھی صاف ظاہر ہوتی ہے کہ اس نے یوسف علیہ السلام کو تو قید میں ڈال دیا مگر عورتوں سے پوچھا تک نہیں کہ تمھارے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ اس سے اس وقت کے معاشرے کی اخلاقی حالت معلوم ہوتی ہے۔ موجودہ زمانے میں پہلے مغرب کے کفار کا یہ حال تھا اب مسلم ممالک کی اشرافیہ کا یہی رنگ ہے۔ (الا ما شاء اللہ) اور تمام کفار اور ان کے ایجنٹ سب مسلمانوں کو ایسا ہی بے غیرت بنانا چاہتے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ انھوں نے قید میں ڈالنے کے لیے ان کے کچھ جرائم تجویز کیے، جس طرح حکومتیں فرضی دفعات جرم لگا دیتی ہیں اور انھوں نے عزیز مصر کی بیوی کے الزام (عزیز کے اہل کے ساتھ برائی کے ارادہ) کی حقیقت جاننے کے باوجود اسی کو یوسف علیہ السلام کا جرم قرار دے دیا، یا ویسے ہی خاموشی سے انھیں قید میں ڈال دیا، جس کا لازمی نتیجہ اصل حقیقت نہ جاننے والوں کے لیے یہی تاثر تھا کہ آخر اس معاملے میں یوسف علیہ السلام کا کوئی قصور تو ہو گا جس کی وجہ سے انھیں جیل میں ڈالا گیا۔ یوسف علیہ السلام کو اپنے متعلق اس تاثر سے شدید قلق تھا، اس لیے آگے آپ دیکھیں گے کہ بادشاہ کے اپنے پاس بلانے کے پیغام کے باوجود یوسف علیہ السلام اس وقت تک قید خانے سے نہیں نکلے جب تک تمام متعلقہ عورتوںکو بادشاہ کے پاس حاضر کروا کے ان کی زبانی اپنی بے گناہی کی تصدیق نہیں کروائی۔ ایک مفسر نے لکھا ہے کہ اب اگر حکومت کسی داعی یا خطیب کو حق بیان کرنے کے جرم میں قید کر دے اور پھر اللہ کی مدد سے کوئی حاکم اسے جیل سے نکالنے کا حکم دے تو اسے جیل میں اڑ کر نہیں بیٹھنا چاہیے، کیونکہ اس پر کوئی ایسا الزام نہیں جو اس کی بدنامی کا باعث ہو۔ رہی حق کی دعوت وتبلیغ تو وہ کوئی جرم نہیں بلکہ اس کا فرض ہے جو اس نے بعد میں بھی ادا کرتے رہنا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود بھی معلوم ہوتا ہے کہ یوسف علیہ السلام کے احسان، تقویٰ، صبر، وفا،خدمت، پاک بازی، عبادت الٰہی اور دوسری بے شمار خوبیوں کی وجہ سے عزیز مصر کے دل میں ان کی محبت یقیناً موجود تھی جس کی وجہ سے اس نے قید پر اکتفا کیا، ورنہ وہ کسی حیلے سے انھیں غائب بھی کروا سکتا تھا، جیسا بھائیوں نے کیا تھا اور قتل بھی کروا سکتا تھا، جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا پہلا منصوبہ تھا، مگر ایک تو یوسف علیہ السلام کا تقویٰ اور صبر تھا اور دوسرا اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا جو سب پر غالب ہے۔ جس کی وجہ سے قید ہی کا فیصلہ ہوا جس میں اللہ تعالیٰ کی بہت سی حکمتیں تھیں۔