سورة یوسف - آیت 25

وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِن دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ ۚ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلَّا أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (ایسا ہوا کہ دونوں دروازوں کی طرف دوڑے اس طرح کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے سے آگے نکل جانا چاہتا تھا (یوسف اس لیے کہ عورت سے بھاگ نکلے، عورت اس لیے کہ اسے نکل بھاگنے سے روکے) اور عورت نے یوسف کا کرتا پیچھے سے کھینچا اور دو ٹکڑے کردیا، اور (پھر اچانک) دونوں نے دیکھا کہ عورت کا خاوند دروازے کے پاس کھڑا ہے، تب عورت نے (اپنا جرم چھپانے کے لیے فورا بات بنا لی) اور کہا جو آدمی تیرے اہل خانہ کے ساتھ بری بات کا ارادہ کرے۔ اس کی سزا کیا ہونی چاہیے ؟ کیا یہی نہیں ہونی چاہیے کہ اسے قید میں ڈالا جائے یا (کوئی اور) دردناک سزا دی جائے؟

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اسْتَبَقَا الْبَابَ.....: علماء نے لکھا ہے کہ اس جملے کا تعلق ’’ وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ ....‘‘ کے ساتھ ہے اور ’’ كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ....‘‘ درمیان میں جملہ معترضہ ہے جو یوسف علیہ السلام کی پاک بازی کو ثابت کرنے کے لیے لایا گیا ہے اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ عورت نے زنا کا عزم کیا، مگر یوسف علیہ السلام نے انکار کیا، چنانچہ اسی کشمکش میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں وہ دونوں دروازے کی طرف دوڑے، آگے یوسف علیہ السلام اور پیچھے عزیز کی بیوی۔ یوسف علیہ السلام اس لیے کہ جلدی سے دروازہ کھول کر بھاگ جائیں اور عزیز کی بیوی دوڑی کہ پہلے پہنچ کر انھیں دروازہ کھول کر بھاگنے نہ دے۔ یہاں قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ وہ دروازے جو عزیز کی بیوی نے بہت اچھی طرح بند کیے جب یوسف علیہ السلام گناہ سے بچنے کے لیے بند دروازوں کی پروا نہ کرتے ہوئے بھاگے تو اللہ تعالیٰ نے کھولنے میں بھی مدد فرما دی۔ اسی مقصد کے لیے اس نے پیچھے سے قمیص پکڑی کہ روک لے مگر قمیص پھاڑ کر بھی روکنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ یوسف دروازے سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے، ساتھ ہی وہ بھی نکلی تو اچانک دونوں نے اس کے خاوند کو سامنے پایا۔ اب وہ سارا ’’عشق حقیقی‘‘ جس کی داستان ہمارے قصہ گو مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں اور اسے ایک رسولِ خدا کا عشق صادق ہونے کی وجہ سے معرفتِ الٰہی کی ایک منزل قرار دیتے ہیں، ایک لمحہ میں بہتان کے سانچے میں ڈھل گیا۔ کہنے لگی، اس شخص کی کیا جزا ہے جس نے تیری گھر والی کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا، سوائے اس کے کہ قید کیا جائے یا دردناک سزا ہو؟ سبحان اللہ! خاوند کو بھڑکانے کے لیے، جو غلام کو ورغلانے والی تھی وہ خاوند کی عفت مآب گھر والی بن گئی، دعویٰ کرنے والی بھی خود ہی بن گئی اور دعویٰ یہ نہیں کہ اس نے کوئی چھیڑ چھاڑ کی یا دست درازی کی ہے، بلکہ صرف یہ کہ برائی کا ارادہ کیا ہے، اب کسی کے سینے کے اندر جا کر کون تحقیق کرے کہ ارادہ تھا بھی یا نہیں اور تھا تو کیا تھا؟ پھر اس الزام کے ثبوت کے لیے کوئی گواہ یا قرینہ پیش نہیں کیا، اس کے باوجود خود ہی سزا سنانے والی جج بن گئی کہ اس کے لیے ان دو سزاؤں میں سے ایک کے سوا ہو ہی کیا سکتی ہے؟