سورة یوسف - آیت 23

وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (پھر ایسا ہوا کہ) جس عورت کے گھر میں یوسف رہتا تھا (یعنی عزیز کی بیوی) وہ اس پر (ریجھ گئی اور) ڈورے ڈالنے لگی کہ بے قابو ہو کر بات مان جائے۔ اس نے (ایک دن) دوروازے بند کردیے اور بولی لو آؤ، یوسف نے کہا معاذ اللہ ! (مجھ سے ایسی بات کبھی نہیں ہوسکتی) تیرا شوہر میرا آقا ہے، اس نے مجھے عزت کے ساتھ (گھر میں) جگہ دی ہے ( میں اس کی امانت میں خیانت نہیں کروں گا) اور حد سے گزرنے والے کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ رَاوَدَتْهُ الَّتِيْ هُوَ فِيْ بَيْتِهَا: ’’ رَاوَدَ ‘‘ باب مفاعلہ سے ہے، نرمی اور ملائمت سے بار بار مطالبہ کرنا، پھسلانا، فریب سے غلط کام پر آمادہ کرنا۔ یہاں باب مفاعلہ مشارکت کے لیے نہیں بلکہ مبالغہ کے لیے ہے، یعنی بار بار اور ہر طریقے سے پھسلایا۔ کیونکہ ایک ہی گھر میں رہ کر خدمت کرنے والے غلام سے ہزار انداز سے اور بار بار اپنے شوق کا اظہار ہو سکتا ہے، مثلاً غلام کھانا لایا ہے تو حکم ہو، دور کیوں بیٹھے ہو؟ ادھر میرے ساتھ آ کر بیٹھو وغیرہ۔’’بَيْتٌ‘‘ ’’بَاتَ يَبِيْتُ‘‘ (رات گزارنا) سے ہے، اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں آدمی رات رہتا ہو، پھر گھر کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ اب بھی اس کا اصل استعمال اینٹ پتھر کے مکان یا اون، پشم اور کپڑے وغیرہ کے خیمے پر ہوتا ہے۔ صحن سمیت پورے گھر کو عموماً ’’دَارٌ‘‘ کہتے ہیں۔ یوسف علیہ السلام جب تک بچے تھے، عزیز کی بیوی کی نظر بچے پر شفقت و محبت والی تھی، اب جب جوانی آئی تو وہ نگاہ نہ رہی۔ یہی اصل بیٹے اور متبنّیٰ کا فرق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو بے مثال حسن سے نوازا تھا۔ حدیث معراج میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوسف علیہ السلام سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (( وَ إِذَا هُوَ قَدْ أُعْطِيَ شَطْرَ الْحُسْنِ)) [ مسلم، الإیمان، باب الإسراء .... :۱۶۲] ’’انھیں حسن کا شطر عطا کیا گیا تھا۔‘‘ شطر کا معنی نصف بھی ہے اور ایک حصہ بھی۔ (قاموس) یعنی یوسف علیہ السلام کو حسن کا خاصا بڑا حصہ عطا ہوا تھا۔ عزیز کی بیوی کے غلط راستے پر چل نکلنے کا ایک باعث ترمذی (۲۱۶۵) میں موجود اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی نافرمانی بھی تھی کہ کوئی عورت کسی غیر محرم مرد کے ساتھ اکیلی نہ ہو، ورنہ ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہو گا(جو دونوں کو ایک دوسرے کی نگاہ میں خوبصورت بنا کر دکھائے گا)۔ یہاں یوسف علیہ السلام تو ویسے ہی شیطان سے محفوظ تھے، اگرچہ غلام ہونے کی وجہ سے پردہ لازم نہ تھا، مگر ایک ہی گھر اور کمرے میں سال ہا سال کی خلوت عزیز مصر کی بیوی کو لے ڈوبی۔ افسوس! مسلمان اب بھی اس کی پروا نہیں کرتے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند کے بھائی کے ساتھ خلوت سے بھی منع کیا، فرمایا : (( اَلْحَمْوُ الْمَوْتُ)) [ بخاری، النکاح، باب لا یخلون رجل....: ۵۲۳۲ ] ’’خاوند کا بھائی تو موت ہے۔‘‘ 2۔ اللہ تعالیٰ نے اس عورت کا نام نہیں لیا جس کے گھر میں یوسف علیہ السلام تھے۔ حق یہی ہے کہ ہم بھی نہ لیں، خصوصاً جب ہمیں اس کا نام کسی صحیح ذریعے سے معلوم ہی نہ ہو اور نام لینے میں کسی گناہ گار خصوصاً عورت کی پردہ دری ہو رہی ہو۔ اس لیے بار بار زلیخا کہنے والے قرآن سے سبق سیکھیں اور اپنے اس رویے کو ترک کریں۔ عَنْ نَّفْسِهٖ: قرآن مجید کے بیان کی پاکیزگی ملاحظہ فرمایئے، پوری بات سمجھ میں آ رہی ہے اور کوئی ناشائستہ لفظ بھی استعمال نہیں ہوا۔ وَ غَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ.....: ’’ غَلَّقَ ‘‘ باب تفعيل ميں سے ہونے کی وجہ سے ترجمہ ’’دروازے اچهی طرح بند كر ليے‘‘ كيا ہے۔ ’’هَيْتَ لَكَ ‘‘ اسم فعل ہے جس کا معنی ہے ’’آ، جلدی کر۔‘‘ ’’ لَكَ ‘‘ خطاب کی صراحت کے لیے ہے، جیسے کہتے ہیں : ’’شُكْرًا لَكَ، سَقْيًا لَكَ ‘‘ اہل علم فرماتے ہیں کہ اس وقت یوسف علیہ السلام کو گناہ پر آمادہ کرنے والی ہر چیز موجود تھی اور روکنے والی دنیا کی کوئی چیز نہ تھی۔ یوسف علیہ السلام کی صحت، جوانی، قوت، خلوت، فریق ثانی کا حسن، پیش کش، اس پر اصرار، غرض ہر چیز ہی بہکا دینے والی تھی، جب کہ انسان کو روکنے والی چیز اس کی اپنی جسمانی یا جنسی کمزوری ہو سکتی ہے، یا فریق ثانی کے حسن کی کمی، یا اس کی طرف سے انکار یا مزاحمت کا امکان یا راز فاش ہونے کا خطرہ یا اپنے خاندان، قوم اور لوگوں میں رسوائی کا خوف، ان میں سے کوئی چیز ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں تھی۔ اٹھتی جوانی تھی، بے مثال حسن تھا، دروازے بند تھے، دوسری طرف سے پیش کش بلکہ درخواست اور اس پر اصرار تھا، اپنے وطن سے دور تھے کہ قبیلے یا قوم میں رسوائی کا ڈر ہو۔ یہاں کتنے ہی لوگ باہر کے ملکوں میں جاتے ہیں تو اپنوں سے دور ہونے کی وجہ سے بہک جاتے ہیں، پھر دروازے خوب بند تھے، راز فاش ہونے کی کوئی صورت ہی نہ تھی اور جب مالکہ خود کہہ رہی ہو تو سزا کا کیا خوف؟ قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ : یوسف علیہ السلام کے سامنے جب بچنے کی کوئی راہ نہ رہی تو انھوں نے اس ذات پاک کی پناہ مانگی جس کی پناہ ملنے کے بعد کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ’’مَعَاذَ ‘‘ مصدر میمی ہے، معنی ہے : ’’أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مَعَاذًا مِمَّا تُرِيْدِيْنَ‘‘ یعنی تم جو چاہتی ہو میں اس سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں کہ وہ مجھے اپنی پناہ میں لے کر اس سے بچا لے۔ اِنَّهٗ رَبِّيْ اَحْسَنَ مَثْوَايَ : اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں اور مفسرین میں سے ہر ایک نے اپنے ذوق کے مطابق کسی ایک معنی کو ترجیح دی ہے۔ ایک تو یہ کہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، بے شک وہ اللہ میرا مالک ہے، اس نے میرا ٹھکانا اچھا بنایا، اس کی نافرمانی کرکے میں ظالموں میں شامل نہیں ہو سکتا۔ دوسرا معنی ہے کہ میں اس کام سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، تم اس عزیز مصر کی بیوی ہو جو میرا مالک ہے، میں اس کا غلام ہوں، اس نے میرے لیے رہنے کا ایسا اچھا انتظام کیا ہے، میں اپنے مالک کی خیانت کیسے کر سکتا ہوں، یہ تو سراسر ظلم ہے۔ پہلے معنی میں عزیز کی بیوی کو اللہ سے ڈرایا اور اس کے احسان یاد دلائے ہیں، دوسرے معنی میں اسے خاوند کی شرم دلائی ہے، شاید اس طرح ہی وہ باز آ جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں معنی درست ہیں، دونوں بیک وقت مراد بھی ہو سکتے ہیں، مگر دوسرا معنی زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب کی تقدیر پر شاکر ہو کر اپنے آپ کو عزیز مصر کا غلام سمجھتے تھے اور ہر طرح اس کی خدمت اور اطاعت کرتے تھے۔ اس لیے وہ اپنے مالک اور مربی کے احسان کا بدلہ اس پر ظلم کے ساتھ دینے کے لیے تیار نہ تھے اور لفظ ’’رب‘‘ غلام کے مالک کے لیے یوسف علیہ السلام کی زبانی اسی سورت میں کئی جگہ آیا ہے، فرمایا : ﴿ قَالَ ارْجِعْ اِلٰى رَبِّكَ فَسْـَٔلْهُ ﴾ [ یوسف : ۵۰ ] اور فرمایا : ﴿ اَمَّا اَحَدُكُمَا فَيَسْقِيْ رَبَّهٗ خَمْرًا ﴾ [ یوسف : ۴۱ ] اور فرمایا : ﴿ اذْكُرْنِيْ عِنْدَ رَبِّكَ فَاَنْسٰىهُ الشَّيْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّهٖ ﴾ [ یوسف : ۴۲ ] اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ : یعنی زنا ظلم ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے۔ زنا اپنے آپ پر ظلم ہے، اس عورت پر ظلم ہے، اس کے خاوند پر ظلم ہے، اپنے خاندان اور اس کے خاوند کے خاندان دونوں پر ظلم ہے کہ کسی خاندان کا بچہ دوسرے خاندان کا بچہ شمار ہو گا، نسب برباد ہو گا۔ زنا پوری انسانیت پر ظلم ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَ سَآءَ سَبِيْلًا ﴾ [ بنی إسرائیل : ۳۲ ] ’’ اور زنا کے قریب نہ جاؤ، بے شک وہ ہمیشہ سے بڑی بے حیائی ہے اور برا راستہ ہے۔‘‘ یعنی زنا بے حیائی ہونے کے ساتھ ایک برا راستہ ہے جو آج تمھیں دوسرے کی عزت برباد کرنے کے لیے لے گیا ہے تو کل کسی کو تمھارے گھر بھی لے آئے گا، مثلاً شریعت نے جب آپ کو چوری سے روکا ہے تو اس نے صرف آپ کو نہیں روکا بلکہ کروڑوں، اربوں کو آپ کی چوری کرنے سے روکا ہے۔ اگر آپ باز نہ آئے تو دوسرے کیوں باز آئیں گے؟ مسلمانوں کے نسب کے محفوظ رہنے اور ان کے معاشرے کی پاکیزگی پر کفار کو بے حد حسد ہے۔ وہ اس شرف سے محروم ہو جانے کے بعد اب ہم میں بھی بے حیائی پھیلا کر ہمیں اس شرف سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ یوسف علیہ السلام کا طرزِ عمل اس معاملے میں ہمارے لیے بہترین چراغ راہ ہے۔