وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوجاتے ہیں تو یہ مت کہو کہ مردے ہیں۔ نہیں وہ تو زندہ ہیں، لیکن تم ان کی زندگی کا شعور نہیں رکھتے
1۔ جہاد میں سب سے بڑی مصیبت جان کا جانا ہے، اس پر صبر کی تلقین اس طرح فرمائی کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کو مت کہو کہ مُردے ہیں ، بلکہ وہ زندہ ہیں ، مگر تم اس زندگی کو نہیں سمجھتے۔ آل عمران (۱۶۹) میں شہداء کی اس زندگی کے عیش و آرام کا ذکر ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ زندگی دنیاوی زندگی نہیں ، نہ ہم اسے سمجھ سکتے ہیں ۔ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ مرنے کے بعد برزخ (قبر) میں ہر شخص کو زندگی حاصل ہے۔ (دیکھیے مومن : ۱۱، ۴۶۔ نوح : ۲۵۔ ابراہیم : ۲۷) مگر مومن کی روح راحت میں ہے اور کافر کی روح کو عذاب ہو رہا ہے۔ احادیث کے مطابق قبر ہی میں ان کے لیے جنت یا دوزخ کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ یہ زندگی انبیاء کو سب سے بڑھ کر کامل حالت میں حاصل ہے، مگر شہداء کی عزت افزائی کے لیے قرآن نے انھیں خاص طور پر ’’اَحْيَآءٌ‘‘ کہا ہے، تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ فلاں قتل ہو گیا، اس سے زندگی کا عیش و آرام چھن گیا۔ 2۔اَمْوَاتٌ: اس پر رفع اس لیے آیا ہے کہ اس کا مبتدا ’’هُمْ‘‘ محذوف ہے، اسی طرح ’’ اَحْيَآءٌ‘‘ کا مبتدا بھی محذوف ہے۔ سورۂ آل عمران (۱۶۹) میں ”اَمْوَاتًا“ پر ”وَ لَا تَحْسَبَنَّ“ کا مفعول ہونے کی وجہ سے نصب آیا ہے۔