سورة یوسف - آیت 6

وَكَذَٰلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ آلِ يَعْقُوبَ كَمَا أَتَمَّهَا عَلَىٰ أَبَوَيْكَ مِن قَبْلُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے میرے بیٹے جس طرحح تو نے دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج چاند تیرے آگے جھکے، تو) اسی طرح تیرا پروردگار تجھے برگزیدہ کرنے والا ہے اور یہ بات سکھلانے والا ہے کہ باتوں کا نتیجہ و مطلب کیونکر ٹھہرایا جائے، نیز جس طرحح وہ اب سے پہلے تیرے بزرگوں ابراہیم اور اسحاق پر اپنی نعمت پوری کرچکا ہے اسی طرح تجھ پر اور یعقوب کے گھرانے پر بھی پوری کرے گا، بلا شبہ تیرا پروردگار (سب کچھ) جاننے والا اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ كَذٰلِكَ يَجْتَبِيْكَ رَبُّكَ : ’’يَجْتَبِيْ‘‘ ’’جَبَي يَجْبِيْ‘‘ (ض) کے باب افتعال ’’اِجْتِبَاءٌ‘‘ کا فعل مضارع ہے، جس کا معنی جمع کرنا، کسی خوبی کی بنا پر چن لینا ہے۔ راغب نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی بندے کے ’’اِجْتِبَاءٌ‘‘ (چن لینے) سے مراد اسے اپنے ایسے فیض کے ساتھ خاص کر لینا ہے جس سے اس کو اپنی کسی کوشش کے بغیر مختلف قسم کی نعمتیں حاصل ہو جائیں، یہ چیز انبیاء کو حاصل ہوتی ہے یا انھیں جو ان کے قریب ہوں، مثلاً صدیقین، شہداء۔ (مفردات) بے شک اعلیٰ درجے کا اجتباء انبیاء، صدیقین اور شہداء کو حاصل ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے چننے کے بھی کئی درجے ہیں، جیسا کہ آپ اپنے متعلق سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کس طرح چنا کہ پتھر یا نباتات یا جانوروں کے بجائے انسان بنایا، پھر کافر نہیں بلکہ مسلمان بنایا، پھر کبیرہ گناہوں سے بچایا، پھر مشرک کلمہ گو کے بجائے موحد اور بدعتی کے بجائے متبع سنت بنایا، اگر علم کتاب کی نعمت بھی حاصل ہے تو آپ ان لوگوں میں جا ملے جن کے متعلق فرمایا : ﴿ ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ﴾ [ فاطر : ۳۲ ] ’’پھر اس کتاب کے وارث ہم نے وہ لوگ بنائے جنھیں ہم نے چن لیا۔‘‘ اگر دعوت الی اللہ کی توفیق مل گئی تو مزید فیض مل گیا۔ غرض اصطفاء اور اجتباء کے کئی درجے ہیں اور جتنا حصہ مل جائے اس پر اللہ کا بے حد شکر ادا کرنا چاہیے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْ لَا اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُ ﴾ [ الأعراف : ۴۳ ] ’’(جنتی کہیں گے) اور ہم کبھی نہ تھے کہ ہدایت پاتے اگر یہ نہ ہوتا کہ اللہ نے ہمیں ہدایت دی۔‘‘ یا اللہ! تو اپنے فضل سے ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جو جنت میں داخل ہو کر ان الفاظ میں تیرا شکر ادا کریں گے۔ (آمین) 2۔ اس آیت میں ’’ وَ كَذٰلِكَ ‘‘ (اور اسی طرح) کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے تجھے یہ خواب دکھلایا، اور کسی کو اس طرح کا خواب نہیں دکھایا، اسی طرح تیرا رب تجھے چنے گا اور تجھے…۔ چننے سے مراد اعلیٰ درجے کا چننا ہے، جیسا کہ اوپر امام راغب سے نقل ہوا، یعنی نبوت و صدیقیت سے نوازے گا اور گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کے سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اعلیٰ مقام پر پہنچا کر تمھیں اپنے عہد کے سب بندوں پر فوقیت بخشے گا۔ وَ يُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ: ’’ الْاَحَادِيْثِ ‘‘ ’’حَدِيْثٌ‘‘ کی جمع ہے جس کا معنی بات ہے۔ ’’ تَاْوِيْلِ ‘‘ کا معنی بات کا صحیح مطلب سمجھنا اور اس کی تہ تک پہنچنا ہے، کیونکہ ’’ تَاْوِيْلِ ‘‘ ’’أَوْلٌ‘‘ سے مشتق ہے، جس کا معنی لوٹنا ہے اور تاویل کا معنی کسی چیز کو اس کے اصل مقصد کی طرف لوٹانا ہے، یعنی جو اس سے مراد ہے۔ یہاں ’’ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ ‘‘ سے مراد بات سمجھنے کی تیز بصیرت اور کمال فہم کے ساتھ خوابوں کی تعبیر بھی ہے ۔ وَ يُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَ عَلٰى اٰلِ يَعْقُوْبَ ....: تم پر اپنی نعمت تمام کرے گا جیسے اس سے پہلے تمھارے (دو باپوں) دادا اور پردادا پر پوری کی، یعنی تمھیں نبوت و رسالت اور حکومت عطا فرمائے گا۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’(اَبَوَيْكَ یعنی تیرے دونوں باپوں پر) ابراہیم اور اسحاق علیھما السلام کا نام لیا، اپنا نہ لیا عاجزی سے۔‘‘ (موضح) آل یعقوب پر نعمت تمام کرنے کا مطلب وہ تمام نعمتیں ہیں جو بنی اسرائیل پر ہوئیں اور جن کا ذکر تفصیل سے قرآن مجید میں موجود ہے۔ اِنَّ رَبَّكَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ : کہ اس کے بندوں میں سے کون سرفرازی کے لائق ہے۔