نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَٰذَا الْقُرْآنَ وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ
(اے پیغمبر) اس قرآن کی وحی کر کے ہم تجھے بہتر طریقہ پر (پچھلی) سرگزشتیں سناتے ہیں اور یقینا قرآن کے نازل ہونے سے پہلے تو انہی لوگوں میں سے تھا جو (ان سرگزشتوں سے) بے خبر تھے۔
1۔ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ: ’’ الْقَصَصِ ‘‘ ’’قَصَّ يَقُصُّ‘‘ کا مصدر ہے، قصہ کی جمع نہیں۔ (دیکھیے جواب اهل العلم ، ص : ۱ تا ۲۰) قصہ کی جمع قصص قاف کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ فرمایا : ﴿ نَحْنُ نَقُصُّ ﴾ ’’ہم بیان کرتے ہیں‘‘ اللہ تعالیٰ جہاں اپنے لیے جمع کا صیغہ لاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام ایک الگ صفت کا تقاضا کرتا ہے، مثلاً بیان کرنا صفت کلام کا تقاضا کرتا ہے، زمین و آسمان بنانا صفت خلق کا تقاضا کرتا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی ہے ہی نہیں جس میں تمام صفات کمال موجود ہوں اور وہ اپنے آپ کو ’’ہم‘‘ کہنے کا صحیح حق رکھتا ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اپنی اس حیثیت کااظہار کرتے ہوئے اپنے لیے ’’ہم‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور جہاں وہ واحد کا لفظ استعمال کریں، مثلاً : ﴿ اِنَّنِيْ اَنَا اللّٰهُ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنَا ﴾ [ طٰہٰ : ۱۴ ] وہ اپنی توحید کے اظہار کے لیے ہوتا ہے، کیونکہ اسی کی ذات واحد، احد، لا شریک لہ ہے ۔ اس سورت میں چونکہ اللہ کے اپنی مرضی کے ہر کام پر غالب ہونے کا اظہار کرنے والی بہت سی صفات مذکور ہیں، اس لیے ’’ نَحْنُ ‘‘ (ہم) سے بات شروع کی ہے۔ 2۔ بِمَا اَوْحَيْنَا اِلَيْكَ هٰذَا الْقُرْاٰنَ : یعنی یہ قرآن وحی کرنے کے ذریعے سے ہم تجھے سب سے اچھا بیان سناتے ہیں۔ اس کا یہ معنی نہیں کہ سورۂ یوسف قرآن کی تمام سورتوں سے احسن ہے، بلکہ قرآن سارا ہی احسن القصص، یعنی تمام بیانوں سے بہتر بیان ہے، جس میں یہ سورت بھی شامل ہے۔ 3۔ وَ اِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ: یہ ’’ اِنْ ‘‘ دراصل ’’اِنَّكَ‘‘ تھا، تخفیف کے لیے کاف کو حذف کر دیا اور ’’اِنَّ‘‘ کو ’’ اِنْ ‘‘ کر دیا۔ اس کی دلیل ’’ لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ ‘‘ پر آنے والا لام ہے اور یہ عربی کا مسلمہ قاعدہ ہے، اسی کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے۔ ’’ اِنْ ‘‘ اور لام کے ساتھ تاکید اس لیے کی ہے کہ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ آپ یہ سب کچھ پہلے ہی جانتے تھے، جیسا کہ ہمارے کئی نادان بھائی کہتے ہیں، بلکہ دوسری جگہ فرمایا: ﴿ تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهَا اِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا اَنْتَ وَ لَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هٰذَا ﴾ [ھود : ۴۹ ] ’’یہ غیب کی خبروں سے ہے جنھیں ہم تیری طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ تو انھیں جانتا تھا اور نہ تیری قوم۔‘‘ 4۔ لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ : یعنی آپ کو اس سے پہلے اس کی کچھ خبر نہ تھی، آپ اُمّی تھے، نہ لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا۔ ایسے شخص پر ایسی بے مثال کتاب کا نزول کہ بڑے بڑے باخبر لوگ اس اُمّی کے شاگرد بن جائیں اس کتاب کے منزل من اللہ ہونے اور آپ کے رسول برحق ہونے کی دلیل ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ عالم الغیب نہ تھے، جتنی وحی ہوتی وہ معلوم ہو جاتا، باقی خبر عالم الغیب کے پاس رہتی جو کسی کے بتائے بغیر سب کچھ جاننے والا ہے، عالم الغیب کہتے ہی ایسی ہستی کو ہیں اور وہ صرف اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔