إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
ہم نے اسے اس شکل میں اتارا کہ عربی زبان کا قرآن ہے، تاکہ تم سمجھو بوجھ۔
1۔ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا ....: ’’ اَنْزَلْنٰهُ ‘‘ میں ’’هٗ ‘‘ ضمیر ’’ الْكِتٰبِ ‘‘ کی طرف جا رہی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ کتاب صرف اہل عرب کے لیے ہے، دوسروں کے لیے نازل نہیں کی گئی ہے۔ بات یہ ہے کہ تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے جو کتاب اتاری جائے گی وہ کسی ایک ہی انسانی زبان میں ہو گی اور فطری طریقہ یہ ہے کہ یا تو اس کتاب کی زبان سیکھی جائے یا اس کا دوسری زبان میں ترجمہ کیا جائے، چنانچہ یہی طریقہ قرآن کے بارے میں ملحوظ رکھا گیا۔ اس لیے عربوں سے، جو اس کے اولین مخاطب ہیں، کہا جا رہا ہے کہ ہم نے یہ کتاب تمھاری اپنی زبان میں نازل کی ہے، کسی اور زبان میں نہیں اتاری کہ تم اسے ٹھیک طرح سے سمجھ نہ سکنے کا عذر پیش کر سکو۔ یہ کتاب عربی قرآن ہے، قرآن کا معنی پڑھنا ہے، بمعنی اسم مفعول، یعنی یہ ایسی کتاب ہے جو اتنی پڑھی جانے والی ہے کہ سراسر اس کا وجود ہی پڑھا جانا ہے۔ اس میں عقل والوں کے لیے عبرت کا بڑا سامان ہے ۔ 2۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ﴾ اس لیے کہ لغت عرب تمام زبانوں سے زیادہ فصیح، سب سے واضح اور وسیع ہے، انسانی نفس میں آنے والے احساسات و جذبات اور مضامین و معانی کو سب سے زیادہ اور بہتر ادا کرنے والی ہے، اس لیے یہ تمام کتابوں سے اشرف (زیادہ بلندی اور شرف رکھنے والی) کتاب ہے۔ یہ کتاب تمام زبانوں سے زیادہ باشرف زبان میں، تمام رسولوں سے زیادہ شرف رکھنے والے رسول پر، تمام فرشتوں سے زیادہ شرف رکھنے والے فرشتے کی سفارت کے ذریعے سے اتری اور زمین کے تمام قطعوں اور علاقوں سے زیادہ باشرف علاقے مکہ میں، سال کے سب سے باشرف مہینے رمضان اور اس کے سب سے باشرف وقت لیلۃ القدر میں اتری۔ سو اس کا باشرف ہونا اور سب کتابوں سے اشرف ہونا ہر لحاظ سے کامل ہے۔‘‘ مختصر سی تفصیل اس کی یہ ہے کہ کئی زبانوں کے حروف تہجی پچاس(۵۰) سے لے کر اسی(۸۰) تک ہیں، جب کہ عربی زبان کے حروف تہجی کل انتیس(۲۹) ہیں، جنھیں سیکھنا آسان ہے۔ سیکھنے میں نہایت آسان ہونے کے باوجود اپنا مقصد اور دل کی بات ادا کرنے کے لیے اس زبان کی وسعت دنیا کی ہر زبان سے زیادہ ہے، مثلاً اکثر زبانوں میں فعل کے صیغوں میں فاعل مذکر یا مؤنث کے لیے الگ الگ الفاظ نہیں ہیں، مثلاً وہ گیا، وہ گئی، دونوں کے لیے فارسی میں ’’رفت‘‘ اور انگریزی میں ’’ went‘‘ ہے۔ ان زبانوں میں مذکر و مؤنث کی وضاحت کے لیے الگ الفاظ لانا پڑیں گے، نہ ہی ان زبانوں میں تثنیہ اور جمع کی وضاحت فعل کے لفظ سے ہوتی ہے، اس کے لیے بھی الگ الفاظ کی ضرورت ہے۔ غرض عربی زبان کی خوبیاں ایک مستقل مضمون ہے، جس پر اہل علم کی کتابیں موجود ہیں۔ عرب قوم پہاڑوں اور صحراؤں میں رہنے اور ہر وقت تقریباً حالت سفر میں رہنے کی وجہ سے نہایت جفاکش اور خود دار قوم تھی اور وہ ہمیشہ غیروں کی غلامی سے آزاد رہی تھی، اگرچہ ان میں بے شمار خرابیاں اور گمراہیاں موجود تھیں، مثلاً بت پرستی، شرک، ظلم و ستم، باہمی لڑائی، چوری، ڈاکے، جوا، شراب نوشی اور زنا وغیرہ، ان میں عام تھے، اس کے باوجود وہ بہت سی خوبیوں کی حامل بھی تھی، مثلاً غیرت، قبائلی زندگی کی وجہ سے حمیت اور دفاع کا جذبہ، کسی صورت غلامی قبول نہ کرنا، ایفائے عہد، سخاوت، صدق، ان پڑھ ہونے کی وجہ سے کمال درجے کا حافظہ۔ غرض وہ قوم بہت سی خوبیوں کی بھی حامل تھی، اپنی زبان کی خوبی، وسعت اور حسن ادا کی وجہ سے اپنے آپ کو عرب (اپنے مطلب کا واضح اظہار کرنے والے) اور دوسری تمام اقوام کو عجم (گونگے) قرار دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بے شمار مصلحتوں کے ساتھ ساتھ ان خوبیوں کی بنا پر بھی تمام اقوام عالم تک اپنا دین پہنچانے کے لیے عربوں کا انتخاب فرمایا، کیونکہ آخری نبی کا قیامت تک باقی رہنے والا معجزہ قرآن مجید اپنی دوسری بے شمار خوبیوں کے ساتھ ادائے مطلب کے حسن میں بھی لاجواب تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے عربی زبان میں اتارا اور چیلنج کر دیا کہ اس جیسی کتاب لاؤ، پھر دس سورتیں لانے کا اور آخر میں صرف تین آیات کی چھوٹی سی سورت کی مثال پیش کرنے کا چیلنج کیا، جس کا جواب آج تک نہ عرب دے سکے، نہ عجم اور نہ قیامت تک دے سکیں گے۔