وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً ۖ وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ
اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک امت بنا دیتا (یعنی سب ایک ہی راہ چلتے لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ اس نے ایسا نہیں چاہا اور یہاں الگ الگ گروہ اور الگ الگ راہیں ہوئیں) اور لوگ ایسے ہی رہیں گے کہ مختلف ہوں۔
1۔ وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً: یعنی اے میرے رسول! تیری خواہش تو یہ ہے کہ سب لوگ مسلمان ہو جائیں، ایک بھی کافر نہ رہے (دیکھیے شعراء : ۳) اور یہ بات تیرے رب پر کچھ مشکل بھی نہیں، جب اس نے جن و انس کے سوا باقی پوری مخلوق کو اپنی اطاعت کا پابند بنا رکھا ہے تو وہ جن و انس کو بھی ایک ہی امت بنا سکتا تھا کہ کوئی کفر کر ہی نہ سکتا، فرمایا : ﴿وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيْعًا اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ﴾ [ یونس :۹۹ ]مگر تیرے رب کی حکمت کا تقاضا کچھ اور تھا، اس لیے اس نے کسی کو ایمان پر مجبور نہیں کیا، سمع و بصر دے کر اور راستہ بتا کر اختیار دے دیا کہ حق و باطل میں سے جو چاہو اختیار کرو۔ اس لیے یہ سب لوگ کبھی ایمان پر متفق نہیں ہو سکتے، بلکہ ان میں ہمیشہ اختلاف رہے گا، کوئی مومن ہے کوئی کافر، کوئی فرماں بردار کوئی نافرمان، فرمایا : ﴿وَ لِذٰلِكَ خَلَقَهُمْ﴾ ’’اور اس نے انھیں اسی (آزمائش کے) لیے پیدا فرمایا ہے۔‘‘ مائدہ میں ہے : ﴿وَ لٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ﴾ [ المائدۃ : ۴۸ ] ’’اور لیکن تاکہ وہ تمھیں اس میں آزمائے جو اس نے تمھیں دیا ہے۔‘‘ اور یہ بات اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی طے کر دی ہے کہ میں جہنم کو اس آزمائش میں ناکام ہونے والے جن و انس سے بھروں گا اور اس بات کے ذکر کی ضرورت ہی نہیں کہ آزمائش میں کامیاب ہونے والوں کو اپنی جنت سے نوازوں گا۔ 2۔ وَ لَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ (118) اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ: معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو فرمایا : (( أَلاَ إِنَّ مَنْ قَبْلَكُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ افْتَرَقُوْا عَلٰی ثِنْتَيْنِ وَ سَبْعِيْنَ مِلَّةً، وَإِنَّ هٰذِهِ الْمِلَّةَ سَتَفْتَرِقُ عَلٰی ثَلاَثٍ وَ سَبْعِيْنَ، ثِنْتَانِ وَسَبْعُوْنَ فِي النَّارِ وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَ هِيَ الْجَمَاعَةُ )) ((زَادَ ابْنُ يَحْيَی وَعَمْرٌو فِيْ حَدِيْثِهِمَا :)) (( وَإِنَّهٗ سَيَخْرُجُ فِيْ أُمَّتِيْ أَقْوَامٌ تَجَارَی بِهِمْ تِلْكَ الْأَهْوَاءُ كَما يَتَجَارَی الْكَلَبُ لِصَاحِبِهِ، وَقَالَ عَمْرٌو: الْكَلَبُ بِصَاحِبِهِ لاَ يَبْقَی مِنْهٗ عِرْقٌ وَلاَ مَفْصِلٌ إِلاَّ دَخَلَهٗ )) [ أبوداؤد، السنۃ، باب شرح السنۃ : ۴۵۹۷۔ السلسلۃ الصحیحۃ :1؍ 404، ح ۲۰۴ ] ’’یاد رکھو! تم سے پہلے اہلِ کتاب بہتر (۷۲) ملتوں میں جدا جدا ہو گئے اور یہ ملت تہتر (۷۳) میں جدا جدا ہو جائے گی۔ بہتر (۷۲) آگ میں اور ایک جنت میں ہو گا اور وہ ’’الجماعۃ‘‘ ہے۔‘‘ ابن یحییٰ اور عمرو نے اپنی روایتوں میں مزید کہا: ’’میری امت میں ایسی قومیں نکلیں گی جن میں یہ خواہشات و بدعات اس طرح رگ رگ میں جاری ہو جائیں گی جیسے باؤلے پن کی بیماری، اس بیماری کے مریض کے رگ و ریشے میں جاری ہو جاتی ہے۔‘‘ عمرو نے کہا: ”باؤلے پن کے بیمار کی کوئی رگ اور کوئی جوڑ باقی نہیں رہتا جس میں اس بیماری کا اثر نہ ہو۔“ 3۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوا کہ کسی امت کا اتفاق اور اجتماع رحمت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگ ہمیشہ مختلف رہیں گے مگر جس پر تیرا رب رحم کرے اور صاف ظاہر ہے کہ امت مسلمہ صرف اسی چیز پر جمع ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی اور وہ کتاب وسنت ہے۔ یہی طریقِ مستقیم ہے اور اسی پر چلنے والے ’’الجماعۃ‘‘ ہیں، باقی سب فرقے بعد میں اس سیدھے راستے سے ہٹنے کی وجہ سے پیدا ہوئے ۔ 4۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عام لوگوں میں مشہور روایت ’’ اِخْتَلاَفُ أُمَّتِيْ رَحْمَةٌ ‘‘ یعنی میری امت کا اختلاف رحمت ہے، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صاف جھوٹ ہے۔ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے اسے موضوع ثابت کرتے ہوئے ایک دلچسپ بات یہ بھی لکھی کہ اگر اسے صحیح مانا جائے تو پھر امت کا اتفاق زحمت ہو گا، کیونکہ اختلاف رحمت ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر اپنے رحم کا ذکر کیا ہے جو اختلاف کرنے والے نہیں ہوں گے۔ اس لیے سب فرقے چھوڑ کر کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھام لینا ہی راہ نجات ہے۔