فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ ۗ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ
پھر (دیکھو) ایسا کیوں نہیں ہوا کہ جو عہد تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان میں اہل خیر باقی رہے ہوتے اور لوگوں کو ملک میں شر و فساد کرنے سے روکتے؟ ایسا نہیں ہوا مگر بہت تھوڑے عہدوں میں جنہیں ہم نے نجات دی، طلم کرنے والے تو اسی راہ پر چلے جس میں انہوں نے (اپنی نفس پرستوں کی) آسودگی پائی تھی، اور (وہ سب احکام حق کے) مجرم تھے۔
فَلَوْ لَا كَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ ....: ’’لَوْ لَا ‘‘ کے دو معانی ہیں، پہلا یہ کہ ’’اگر یہ نہ ہوتا‘‘ مثلاً ’’لَوْ لَا عَلِيٌّ لَهَلَكَ عُمَرُ ‘‘ ’’اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتے۔‘‘ دوسرا معنی ’’هَلاَّ ‘‘ یعنی ’’ایسا کیوں نہ ہوا‘‘ یہ ترغیب کے لیے ہوتا ہے، یعنی ایسا ہونا چاہیے تھا، یہاں یہی معنی مراد ہے۔ ’’ قَرْنٌ ‘‘ ایک نسل کے لوگ۔ یہ لفظ عموماً ایک صدی پر بولا جاتا ہے۔ ’’اُولُوْا بَقِيَّةٍ ‘‘ اچھی عادات و خصائل اور عقل والے لوگ۔ اصل میں ’’بَقِيَّةٍ ‘‘ ان نفیس اور منتخب چیزوں کو کہا جاتا ہے جنھیں انسان اپنے فائدے کے لیے بچا بچا کر باقی رکھتا ہے، جیسے کہتے ہیں : ’’بَقِيَّةُ السَّلَفِ ‘‘ یعنی پہلے لوگوں میں سے بہترین آدمی۔ پہلی تمام قوموں کے واقعات کے بعد اب خلاصہ بیان ہو رہا ہے کہ تم سے پہلے ان لوگوں میں ایسے اصحاب خیر کیوں نہ ہوئے جو اہل شر اور اہل فساد کو فساد فی الارض سے روکتے، یعنی ایسے لوگوں کی موجودگی نہایت ضروری تھی۔ پھر فرمایا، ایسے لوگ تھے تو سہی مگر نہایت تھوڑے، جن کی کچھ پیش نہ چلی، چنانچہ جب دوسروں پر عذاب آیا تو ان قلیل لوگوں کو ہم نے عذاب سے بچا لیا۔ اس میں مسلمانوں کو بھی تنبیہ ہے کہ جب تک ان میں ایسے اصحاب خیر موجود رہیں گے جو نیکی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور ایسے اصحاب خیر بالکل تھوڑے اور بے اثر نہیں ہوں گے تو اس وقت تک عذاب نہیں آئے گا۔ پھر پہلوں کی ہلاکت کا سبب بیان فرمایا کہ وہ ان نعمتوں اور خوش حالیوں میں پڑ کر اپنی خسیس خواہشات کے پیچھے ایسے لگے کہ وہ عذاب کے قابل مجرم بن گئے۔