وَأُتْبِعُوا فِي هَٰذِهِ لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ بِئْسَ الرِّفْدُ الْمَرْفُودُ
اور اس دنیا میں لعنت ان کے پیچھے لگی (کہ ان کا ذکر پسندیدگی کے ساتھ نہیں کیا جاتا) اور قیامت میں بھی (کہ عذاب آخرت کے مستحق ہوئے) تو دیکھو کیا ہی برا صلہ ہے جو ان کے حصے میں آیا۔
1۔ وَ اُتْبِعُوْا فِيْ هٰذِهٖ لَعْنَةً ....: یعنی آگ کے علاوہ انھیں یہ سزا بھی دی گئی کہ رہتی دنیا تک لوگ ان پر پھٹکار بھیجتے رہیں گے اور قیامت کے دن ان پر جو پھٹکار پڑے گی اس کا حال تو معلوم ہی ہے۔ ان آیات میں فرعون کو صریح دوزخی بتایا گیا ہے، مگر بعض لوگوں نے اسلام کو مٹانے کے لیے تصوف کے پردے میں وحدت الوجود کا عقیدہ ایجاد کیا اور کہا کہ ہر چیز ہی درحقیقت اللہ تعالیٰ ہے، سو فرعون’’اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْليٰ ‘‘ کہنے میں غلط نہ تھا۔ ان لوگوں کے نزدیک حسین بن منصور حلاج، جسے عام طور پر منصور کہتے ہیں، کامل ولی تھا، کیونکہ وہ کہتا تھا کہ میں خدا ہوں۔ وہ اصل حقیقت کو پا گیا تھا اور صاف کہتا تھا کہ ’’أَنَا الْحَقُّ ‘‘ مگر اس وقت اسلام کے محافظ خلیفۂ وقت نے اس کفریہ عقیدے کے ثابت ہونے پر اسے سولی پر چڑھا دیا۔ ان وجودی ملحدوں کے کہنے کے مطابق وہ سولی پر چڑھ گیا، مگر حق کہنے سے باز نہ آیا۔ ایسے کفر یہ الفاظ اور عقیدے پر اللہ کی پھٹکار جس کے نتیجے میں خالق و مخلوق کا فرق ختم، جنت و دوزخ کا فرق ختم اور شریعت کا ہر حکم ہی ختم ہو جاتا ہے۔ جب کہا جائے کہ فرعون اپنی سرکشی کی پاداش میں سمندر میں غرق کر دیا گیا تو وہ کہتے ہیں کہ فرعون دراصل بحر توحید میں غرق تھا۔ غرض اس طرح کی صریح کفر کی باتیں جو صاف قرآن کے خلاف ہیں، کہتے ہیں، مگر مسلمانوں میں شامل رہنے اور انھیں گمراہ کرنے کے لیے اسلام کا لبادہ اوڑھے رکھتے ہیں، حالانکہ یہ عقیدہ اس اسلام کے صریح مخالف ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے آیا اور قرآن و حدیث کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ اس عقیدے کی رو سے نیکی و بدی، شرک و توحید، نکاح و زنا، غرض ہر اطاعت اور نافرمانی کا فرق ہی مٹ جاتا ہے اور انبیاء و رسل اور کتب الٰہیہ سب بے کار ٹھہرتے ہیں۔ [ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ھٰذِہِ الْعَقِیْدَۃِ الْمَلْعُوْنَۃِ] قرآن مجید میں صراحت ہے کہ آل فرعون کو مرتے ہی آگ نے گھیر لیا اور قیامت کو وہ سخت ترین عذاب میں داخل ہوں گے۔ دیکھیے سورۂ مومن (۴۵، ۴۶)۔ 2۔ ’’الرِّفْدُ ‘‘ کا معنی عطیہ،’’الْمَرْفُوْدُ ‘‘ جو انھیں دیا گیا، یعنی دنیا اور آخرت میں لعنت کا عطیہ۔ لعنت کو عطیہ اور انعام بطور مذاق فرمایا ہے، جیسے فرمایا : ﴿ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ﴾ [ آل عمران :۲۱]’’سو انھیں ایک دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دے۔‘‘