إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَاتَّبَعُوا أَمْرَ فِرْعَوْنَ ۖ وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ
فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف، مگر وہ فرعون کی بات پر چلے اور فرعون کی بات راست بازی کی بات نہ تھی۔
1۔ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىِٕهٖ ....: یہاں فرعون کے ساتھ اس کے سرداروں کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ وہی اس کے احکام کو نافذ کرنے والے تھے۔ بقول زمخشری ان کی جہالت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ وہ فرعون کے احکام کے پیچھے لگے رہے، حالانکہ وہ احکام عقل کے صریح خلاف تھے، مثلاً اپنے جیسے ایک انسان کے رب اعلیٰ ہونے کا دعویٰ مان لینا جس میں ہر انسانی کمزوری پائی جاتی ہے اور حد سے بڑھ کر ظلم وستم، مثلاً معصوم بچوں کو قتل کرنے وغیرہ کے حکم پر عمل کرنا، مگر فرعون نے انھیں اس قدر ہلکا اور ذلیل کیا ہوا تھا کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کے واضح معجزات دیکھنے کے باوجود فرعون ہی کے پیچھے لگے رہے، کیونکہ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے میں انھیں اپنا فسق (نافرمانی) چھوڑنا پڑتا تھا، فرمایا : ﴿ فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ فَاَطَاعُوْهُ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ ﴾ [ الزخرف : ۵۴ ] ’’غرض اس نے اپنی قوم کو ہلکا (اور بے وزن) کر دیا تو انھوں نے اس کی اطاعت کر لی، یقیناً وہ نافرمان لوگ تھے۔‘‘ 2۔ وَ مَاۤ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيْدٍ : ’’رَشَدَ ‘‘ (ن، ف) سے ’’رَشِيْدٌ ‘‘ وہ شخص جس کی رائے درست اور سوچ اچھی ہو، یہاں فرعون کے حکم کو فرمایا کہ وہ ہرگز کسی طرح درست نہ تھا، بلکہ واضح طور پر گمراہی پر مبنی تھا۔ اتنی تاکید نفی کی باء اور ’’ بِرَشِيْدٍ ‘‘ کی تنوین سے حاصل ہو رہی ہے۔