قَالُوا يَا شُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيرًا مِّمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاكَ فِينَا ضَعِيفًا ۖ وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ
لوگوں نے کہا اے شعیب ! تم جو کچھ کہتے ہو اس میں سے اکثر باتیں تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ تم ہم لوگوں میں ایک کمزور آدمی ہو، (اگر (تمہارے ساتھ) تمہاری برادری کے آدمی نہ ہوتے تو ہم ضرور تمہیں سنگ سار کردیتے، تمہاری ہمارے سامنے کوئی ہستی نہیں۔
1۔ قَالُوْا يٰشُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ ....: ’’فَقِهَ يَفْقَهُ ‘‘ (ع) متکلم کی بات کا مطلب سمجھنا۔ یہ بات انھوں نے استہزا اور تحقیر، یعنی شعیب علیہ السلام اور ان کے کلام کو بے وقعت قرار دینے کے لیے کہی، یا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے کرتے ان کے ذہن اس قدر مسخ ہو چکے تھے کہ شعیب علیہ السلام کی سیدھی باتیں بھی واقعتا ان کے ذہن میں نہیں آتی تھیں، حالانکہ شعیب علیہ السلام نہ کسی غیر زبان میں گفتگو کرتے تھے اور نہ ان کا انداز بیان ہی پیچیدہ اور الجھا ہوا تھا، بلکہ شعیب علیہ السلام کی گفتگو سے صاف پتا چل رہا ہے کہ وہ کتنے بڑے فصیح اللسان خطیب تھے۔ مفسر ابوالسعود کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ انھوں نے یہ بات کہ ’’ہم تیری بات کا مطلب ہی نہیں سمجھتے‘‘ اس وقت کہی جب وہ بہترین اور بلیغ ترین طریقے سے شعیب علیہ السلام سے حق اور اس کے ایسے واضح دلائل سن چکے جن کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اب اس سے آگے ان کے پاس کوئی بات باقی ہی نہ تھی جو وہ کہہ سکتے، تو جس طرح کوئی بندہ لاجواب ہو کر بدزبانی، گالی گلوچ اور دھمکیوں پر اتر آتا ہے، یہی کام انھوں نے کیا۔ 2۔ وَ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِيْنَا ضَعِيْفًا : یعنی نہ تیرے پاس فوج ہے، نہ حکومت اور نہ کرّو فر۔ 3۔ وَ لَوْ لَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ : جو ہمارے دین پر ہیں، لیکن تیری پشت پناہی کر رہے ہیں۔ 4۔ وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَيْنَا بِعَزِيْزٍ: ’’عَزِيْزٌ‘‘ معزز، محبوب اور قوی، یعنی تو ہم پر کسی طرح بھی عزیز نہیں ہے، نہ ہم تمھاری کچھ عزت سمجھتے ہیں، نہ ہمیں تجھ سے کوئی محبت ہے اور نہ تو ہم سے طاقت میں بڑھ کر ہے۔ غرض تجھے سنگسار کرنا ہمیں کچھ بھی مشکل نہیں، اگر تیرے قبیلے کے لوگ جو ہمارے ہی دین پر ہیں، تیری پشت پر نہ ہوتے تو ہم ضرور تجھے سنگسار کر دیتے۔ جس زمانے میں یہ آیات نازل ہوئیں بالکل وہی صورت حال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ معظمہ میں درپیش تھی۔ قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے اور ہر ممکن طریقے سے آپ کی زندگی کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے، لیکن چونکہ بنو ہاشم آپ کی پشت پر تھے اور خاص طور پر آپ کے چچا ابوطالب آپ کی پوری طرح حفاظت کر رہے تھے، اس لیے قریش کو آپ پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہو سکی۔