قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا ۚ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ۚ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ
شعیب نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! کیا تم نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل روشن رکھتا ہوں اور (اس کے فضل و کرم کا یہ حال ہو کہ) اچھی (سے اچھی) روزی عطا فرما رہا ہو (تو پھر بھی میں چپ رہوں اور تمہیں راہ حق کی طرف نہ بلاؤں) اور میں یہ نہیں چاہتا کہ جس بات سے تمہیں روکتا ہوں اس سے تمہیں تو روکوں اور خود اس کے خلاف چلوں۔ (میں تمہیں جو کچھ کہتا ہوں اسی پر عمل بھی کرتا ہوں ٩ میں اس کے سوا کچھ نہیں چاہتا کہ جہاں تک میرے بس میں ہے اصلاح حال کی کوشش کروں، میرا کام بننا ہے تو اللہ ہی کی مدد سے بننا ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع ہوں۔
1۔ قَالَ يٰقَوْمِ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كُنْتُ ....: ’’بَيِّنَةٍ ‘‘ وہ دلیل جس کے ساتھ حق اور باطل واضح اور الگ الگ ہو جائے۔ ’’ رِزْقًا حَسَنًا ‘‘ یہ لفظ تین چیزوں کے لیے آیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نبوت، حلال روزی اور صاف ستھری پاکیزہ زندگی۔ یہاں ’’اَرَءَيْتُمْ ‘‘ کا جواب محذوف ہے، یعنی اے میری قوم! یہ بتاؤ اگر میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر قائم ہوں اور اس نے مجھے رزق حسن دیا ہو تو کیا میں اسے چھوڑ کر تمھاری طرح حرام کھانے لگوں اور تمھیں نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا چھوڑ دوں؟ ’’ رِزْقًا حَسَنًا ‘‘ سے معلوم ہو رہا ہے کہ شعیب علیہ السلام عطائے نبوت کے ساتھ ساتھ حلال روزی کے ذریعے سے اچھے خاصے مال دار آدمی تھے۔ 2۔ وَ مَاۤ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ ....: یعنی میں جو تمھیں اللہ کے ساتھ شرک سے اور ماپ تول میں کمی سے منع کر رہا ہوں، اس کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ تمھیں تو اس سے باز رہنے کی تلقین کروں اور خود اس کا ارتکاب کرتا رہوں، بلکہ میں تم سے جو بات بھی کہتا ہوں، پہلے خود اس پر عمل کرتا ہوں۔ تمام انبیاء علیھم السلام کا اور سلف صالحین کا بھی یہی شیوہ رہا ہے۔ اس کے برعکس کرنے والوں کا انجام حدیث میں یوں ہے، اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يُجَاءُ بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُلْقَی فِي النَّارِ فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُهٗ فِي النَّارِ، فَيَدُوْرُ كَمَا يَدُوْرُ الْحِمَارُ بِرَحَاهٗ فَيَجْتَمِعُ أَهْلُ النَّارِ عَلَيْهِ فَيَقُوْلُوْنَ يَا فُلَانُ! مَا شَأْنُكَ ؟ أَلَيْسَ كُنْتَ تَأْمُرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَانَا عَنِ الْمُنْكَرِ؟ قَالَ كُنْتُ آمُرُكُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَلاَ آتِيْهِ، وَأَنْهَاكُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَآتِيْهِ )) [ بخاری، بدء الخلق، باب صفۃ النار و أنھا مخلوقۃ : ۳۲۶۷ ] ’’ایک آدمی کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ اس کی انتڑیاں تیزی سے باہر نکل پڑیں گی تو وہ اس طرح گھومے گا جیسے گدھا اپنی چکی کے گرد گھومتا ہے، تو جہنمی اس پر اکٹھے ہو جائیں گے اور کہیں گے، اے فلاں! تیرا کیا معاملہ ہے؟ کیا تو ہمیں نیکی کا حکم نہیں دیتا تھا اور ہمیں برائی سے منع نہیں کرتا تھا؟ وہ کہے گا، میں تمھیں نیکی کا حکم دیتا تھا اور خود وہ نیکی نہیں کرتا تھا اور تمھیں برائی سے منع کرتا تھا اور خود اس کا ارتکاب کرتا تھا۔‘‘ 3۔ اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ : تاکہ تمھارا دنیا و آخرت میں بھلا ہو۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یہ خصلت ہے اللہ کے نیک لوگوں کی کہ چڑانے سے برا نہ مانا اور اپنے مقدور بھر سمجھاتے رہے۔‘‘ 4۔ وَ مَا تَوْفِيْقِيْۤ اِلَّا بِاللّٰهِ : یعنی آج میں تمھیں جو نصیحت کر رہا ہوں یا کرنا چاہتا ہوں، اس کو جاری رکھنے اور اس کی کامیابی کا دارو مدار اللہ ہی پر ہے۔