وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ وَلَا تَنقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ ۚ إِنِّي أَرَاكُم بِخَيْرٍ وَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيطٍ
اور ہم نے (قبیلہ) مدین کی طرف اس کے بھائی شعیب کو بھیجا، اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو، میں دیکھ رہا ہوں کہ تم خوشحال ہو، (یعنی خدا نے تمہیں بہت کچھ دے رکھا ہے، پس کفران نعمت سے بچو) میں ڈرتا ہوں کہ تم پر عذاب کا ایسا دن نہ آجائے جو سب سے پر چھا جائے گا۔
1۔ وَ اِلٰى مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًاقَالَ يٰقَوْمِ ....: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۸۵ تا ۹۳) اور سورۂ شعراء (۱۷۶ تا ۱۹۰) مکیال اور کیل سے مراد کسی مقرر پیمانے کے برتن مثلاً صاع (ٹوپہ وغیرہ) میں ڈال کر غلے وغیرہ کو ماپنا اور میزان اور وزن کا معنی ترازو وغیرہ سے تولنا ہے۔ 2۔ اِنِّيْۤ اَرٰىكُمْ : یعنی تم اچھے خاصے خوش حال ہو، پھر اس قسم کی بے ایمانی اور فریب کاری کی کیا ضرورت ہے۔ 3۔ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيْطٍ : یعنی آخرت کا عذاب یا دنیا ہی میں اس دن کا عذاب جس کے گھیرے سے کوئی نکل نہ سکے گا۔