قَالُوا يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَن يَصِلُوا إِلَيْكَ ۖ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ إِلَّا امْرَأَتَكَ ۖ إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ ۚ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ ۚ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ
(تب مہمانوں نے) کہا اے لوط ! ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے آئے ہیں (گھبرانے کی کوئی بات نہیں) یہ لوگ کبھی تجھ پر قابو نہ پاسکیں گے، تو یوں کر کہ جب رات کا ایک حصہ گزر جائے تو اپنے گھر کے آدمیوں کو ساتھ لے کر نکل چل اور تم میں سے کوئی ادھر ادھر نہ دیکھے (یعنی اور کسی بات کی فکر نہ کرے) مگر ہاں تیری بیوی (ساتھ دینے والی نہیں، وہ پیچھے رہ جائے گی) جو کچھ ان لوگوں پر گزرنا ہے وہ اس پر بھی گزرے گا، ان لوگوں کے لیے عذاب کا مقررہ وقت صبح کا ہے اور صبح کے آنے میں کچھ دیر نہیں۔
1۔ قَالُوْا يٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ ....: قوم کے بدمعاش جب باز نہ آئے بلکہ دیواریں پھلانگ کر یا دروازہ توڑ کر اندر آ گئے تو اللہ تعالیٰ نے سب کو اندھا کر دیا اور وہ وہاں سے بھاگ اٹھے۔ سورۂ قمر میں اس کی طرف اشارہ ہے، فرمایا : ﴿ وَ لَقَدْ رَاوَدُوْهُ عَنْ ضَيْفِهٖ فَطَمَسْنَاۤ اَعْيُنَهُمْ فَذُوْقُوْا عَذَابِيْ وَ نُذُرِ ﴾ [ القمر : ۳۷ ] ’’اور بلاشبہ یقیناً انھوں نے اسے اس کے مہمانوں سے بہکانے کی کوشش کی تو ہم نے ان کی آنکھیں مٹا دیں، پس چکھو میرا عذاب اور میرا ڈرانا۔‘‘ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب فرشتوں نے دیکھا کہ لوط علیہ السلام بالکل عاجز آ گئے ہیں اور اپنی قوم کے بدکاروں کو نہ روک سکنے کی وجہ سے سخت رنجیدہ ہیں تو انھوں نے ظاہر کر دیا کہ ہم آپ کے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں، مزید تسلی یہ دی کہ یہ لوگ کبھی آپ کی گرد کو بھی نہیں پا سکتے۔ 2۔ فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّيْلِ ....: یعنی رات کے کسی حصے میں اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکل جاؤ اور تم میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے۔ صرف گھر والوں کو لے کر نکلنے کا حکم اس لیے دیا کہ کوئی اور شخص ان کے سوا مسلمان ہی نہیں ہوا تھا۔ دیکھیے سورۂ ذاریات ( ۳۵، ۳۶)۔ 3۔ اِلَّا امْرَاَتَكَ : اس کی دو تفسیریں ہو سکتی ہیں، ایک تو یہ کہ ’’فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ ‘‘ سے استثنا ہے، یعنی اپنی بیوی کے سوا دوسرے گھر والوں کو لے کر نکل جاؤ۔ دوسری یہ کہ تم میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے، مگر تمھاری بیوی مڑ کر دیکھے گی اور اپنے کفر اور قوم کی ہمدردی کی وجہ سے ان پر عذاب دیکھ کر آہ و پکار کرے گی تو اسے بھی وہی عذاب آ پہنچے گا جو ان کو پہنچا۔ پہلا معنی زیادہ قریب ہے۔ (واللہ اعلم) قدرتی بات ہے کہ انسان کو اپنے دشمن کی جلد از جلد بربادی کی خواہش ہوتی ہے، فرشتوں نے بتایا کہ ان پر عذاب صبح کے وقت آئے گا۔ لوط علیہ السلام کے مزید جلدی کے مطالبے پر انھوں نے کہا : ﴿ اَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيْبٍ ﴾ ’’کیا صبح واقعی قریب نہیں ہے؟‘‘ صبح کا وقت شاید اس لیے مقرر کیا گیا ہو کہ وہ آرام کا وقت ہوتا ہے اور لوگ کچھ کچھ جاگ رہے ہوتے ہیں۔ آرام کے وقت عذاب زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے اور ایسے وقت میں عذاب دیکھنے والوں کے لیے باعث عبرت بھی ہوتا ہے۔ (آلوسی) ’’اَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيْبٍ ‘‘ پر شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ فتح ہوا صبح کے وقت، شاید وہی اشارہ ہو۔‘‘ (موضح)